28 نومبر ، 2017
پاکستان میں رولر اسکیٹنگ کا کھیل زیادہ مشہور نہیں لیکن لیاری کے نوجوان بابر عرف ببن بلوچ نے اس کھیل کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے۔
بابر بلوچ نے رولر اسکیٹنگ پر مکمل عبور حاصل کرنے کے لئے لیاری کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اسکیٹنگ سیکھی اور پھر اس کھیل کے اسٹنٹ میں مہارت حاصل کی اور آج وہ سڑکوں پر اپنا فن دکھاتا پھرتا ہے۔
ببن کی دیکھا دیکھی لیاری میں فٹبال اور باکسنگ کے بعد رولر اسکیٹنگ کی مقبولیت بڑھ گئی ہے۔
جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ببن بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ جب آٹھ سال کے تھے تو انھوں نے محلے کے بچوں کو اسکیٹنگ کرتے دیکھا اس کے بعد سے وہ اس کھیل کے دیوانے ہوگئے ہیں۔
ببن بلوچ پر اسکینٹگ کا خمار ایسا چڑھا کہ اس کھیل کو سیکھنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا، بابر نے بتایا کہ انہوں نے ابتدا میں گاڑی کے چھوٹے ٹائروں کو بطور اسکیٹنگ استعمال کیا۔
شوق اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے والد نے اسکیٹنگ شوز خرید کر دیئے تو ببن بلوچ تین سال تک انہی شوز پر اسکیٹنگ سیکھتا رہا۔
بابر کے مطابق انہوں نے رولر اسکیٹنگ میں اسٹنٹ کی مہارت حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے جتن کئے، کبھی روڑ پر چلتے ٹرالر پر چڑھتا، ٹائروں کے درمیان سے گزرتا اور کبھی سڑک کی ناہمواری کی وجہ سے منہ کے بل بھی گرتا۔
لیکن بابر دیگر اسکیٹرز کو منع کرتے ہیں کہ وہ کبھی ایسا نہ کریں کیوں کہ اس میں جان جانے کا خطرہ بھی موجود ہے۔
ببن بلوچ کا دعویٰ ہے کہ رولر اسکیٹنگ میں ان جیسا کوئی نہیں، جب لوگ انہیں 'ٹرپل بی' کے نام سے پکارتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
بابر بلوچ نے کہا کہ معاشی طور پر وہ غیر مستحکم ہیں، کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور والد بیماری کی وجہ سے کمانے سے قاصر ہیں جب کہ والدہ محلے میں چاول بیچتی ہیں جس سے حاصل ہونے والی رقم سے گزر بسر ہوتا ہے۔
بابر کے مطابق وہ خود پاپڑ بنا کر سپلائی کرتے ہیں جس سے حاصل آمدنی کرائے کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔
بابر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسکیٹنگ کے شوز لینے کے بھی پیسے نہیں اور ان دنوں جو اسکیٹنگ شوز استعمال کررہے ہیں اس کا ایک ٹائر بھی نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔
بابر بلوچ کی خواہش ہے کہ وہ اسکیٹنگ میں پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کریں لیکن ان کے پاس وسائل نہیں اور وہ پرامید ہیں کہ اگر انہیں دنیا میں سبز ہلالی پرچم سربلند کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تو مایوس نہیں کریں گے۔