,
Time 05 دسمبر ، 2017
پاکستان

ایف آئی اے نے اے ٹی ایم فراڈ کی تحقیقات شروع کردیں

کراچی: ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ ڈاکٹر امیرشیخ کا کہنا ہےکہ حالیہ بینک اسکِمنگ کی کوئی اطلاع ایف آئی اے کو نہیں دی گئی لیکن اپنے طور پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

کراچی میں حال ہی میں سامنے آنے والا اے ٹی ایم اسکمنگ اسکینڈل کھلتا چلا جا رہا ہے۔ جیونیوزن ے گزشتہ روز خبر دی تھی کہ بینک انتظامیہ نے تاحال حالیہ اسکینڈل کے بارے میں ایف آئی اے کو باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا ہے اور اب اس خبر کی تصدیق ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ ڈاکٹر امیر شیخ نے بھی کردی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران کراچی اور اسلام آباد میں سیکڑوں اے ٹی ایم صارفین کا ڈیٹا حاصل کر کے ان کی رقم چوری کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا اور نقب زنی کی اس تکنیکی واردات میں چینی باشندوں کے بھی ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کی گفتگو

جیونیوز سے خصوصی گفتگو میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا کہ ماضی میں ایسے چار کیسز ڈیٹیکٹ کیے، ماضی میں بینک شکایت لے کر ہمارے پاس آیا تو پھر ہم نے کارروائی کی اور 3 چینی باشندوں کو گرفتار کیا۔

انہوں نے کہا کہ تاحال حالیہ اسکمنگ کی باقاعدہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی لیکن ایف آئی اے نے اپنے طور تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، بینک انتظامیہ سے ہم نے خود رابطہ کیا ہے اور معلومات طلب کی ہے۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سائبر کرائم کے ماہرین کو تحقیقات کی ذمے داری سونپ دی ہے، بینک انتطامیہ معلومات اکٹھا کرکے تفصیلات ہمیں فراہم کرے گی جب کہ کوئی متاثرہ شخص آئے یا بنک شکایت کرے تو کارروائی کرسکتے ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ماضی میں بینک شکایت لے کر ہمارے پاس آئے تھے جس پر ہم نے کارروائی کی، ایسے چار واقعات ایف آئی  اے سائبر کرائم سرکل کو رپورٹ ہوئے اور جون 2016 اور مارچ 2017 میں دو مختلف کارروائیوں میں اے ٹی ایم مشین میں اسکمنگ ڈیوائس لگانے والے تین ملزمان پکڑے جو کہ چینی باشندے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملزمان اسکمنگ ڈیوائس اے ٹی ایم مشین کے کارڈ ہولڈر میں لگاکر کارڈ کا ڈیٹا حاصل کرتے جبکہ اسی ڈیوائس میں لگے کیمرے سے پاسورڈ بھی حاصل کیاجاتا۔

اس کے بعد حاصل ہونے والی معلومات سے ایک جعلی کارڈ بناکر رقم نکالی جاتی ہے۔

ڈاکٹر امیر شیخ نے مزید بتایا کہ ہم نے ماضی میں ایسے 4 کیسز کے سراغ لگائے، تمام شکایتیں بینک نے کیں، تاہم تاحال حالیہ اسکمنگ کی باقائدہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نے اپنے طور تحقیقات کا آغاز کردیاہے اور سائبرکرائم کے ماہرین کو تحقیقات کی ذمے داری سونپ دی گئی ہے اور بینک انتظامیہ سے خود رابطہ کر کے معلومات طلب کی ہے۔

بینک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ تفصیلات کو اکھٹا کر رہے ہیں اور امکان ہے کہ وہ اس کام کو مکمل کرنے کے بعد ہمیں فراہم کردیں گے۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کو بینک ذرائع نے بتایا ہے کہ اب تک تقریباً ڈیڑھ سے پونے دو کروڑ روپے کی آن لائن چوری کا بینک انتظامیہ اندازہ لگاچکی ہے جبکہ مزید تفصیلات ابھی اکھٹا کی جارہی ہیں۔

اسکمنگ ڈیوائس نصب کرنے کی ویڈیو


ایف آئی اے کو بینک انتظامیہ کی جانب سے اسکمنگ ڈیوائس نصب کیے جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کی گئی ہے کہ جس میں 2 ملزمان کارروائی کرتے نظر آرہے ہیں۔

سی سی ٹی وی ویڈیو میں ایک چینی اور ایک پاکستانی شخص ڈیوائس نصب کرتے نظر آرہے ہیں، ذرائع دعوی کرتے ہیں کہ سی سی ٹی وی ویڈیو ڈی ایچ  اےکی ہے اور یہ وڈیو گزشتہ ماہ کی 16 تاریخ کی ہے۔

ملزمان نے دن دیہاڑے سہہ پہر چار بج کر 21 منٹ پر ڈیوائس کی تنصیب شروع کی، سی سی ٹی وی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک چینی ملزم  اے ٹی ایم میں پہلے سے موجود ہےجبکہ دوسرا پاکستانی ملزم  اے ٹی ایم میں داخل ہوکر اسے ڈیوائس تھماتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔

دونوں ملزمان نے ڈیوائس کی تنصیب بینک کے اوقات میں ہی کی، بینک انتظامیہ کو ان کے چلے جانے کے بعد ڈیوائس تنصیب کیے جانے کا علم ہوا تو انتظامیہ نے متاثرہ اے ٹی ایم مشین کو تبدیل کردیا۔

اب بینک انتظامیہ نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج ایف آئی اے کے حوالےکی ہے۔

بینک نے رقم واپس کرنا شروع کردی

ترجمان ایچ بی ایل نوید اصغر کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے بعد متاثرہ صارفین کے اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانا شروع کردی ہے۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ بینک انتظامیہ اسکمنگ سے متاثرہ اکاؤنٹس صارفین سے مسلسل رابطے میں ہے جب کہ قانون کے تحت اسٹیٹ بینک سمیت تمام متعلقہ اداروں کو معلومات فراہم کردی ہیں۔

دوسری جانب جیو نیوز کو متاثرہ اکاؤنٹس ہولڈر نے بتایا کہ بینک کو خط میں رقم نکلنے کی مکمل تفصیل فراہم کی تھی اور تحقیقات کے بعد بینک نے پوری رقم اکاؤنٹ میں منتقل کردی ہے۔

ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر 585 صارفین کے اکاؤنٹس متاثر ہوئے جنہیں رقم واپس ملنا شروع ہوگئی ہے۔

تکنیکی نقب زنی کی اس واردات میں اے ٹی ایم مشینوں پر اسکمرز لگائے گئے جس سے عام صارف لاعلم رہتا ہے اور صارف پیسے تو پاکستان میں نکالتا ہے لیکن وہ چین میں کسی شخص کو موصول ہوتے ہیں۔ 

اسکِمنگ کیا ہے؟

اے ٹی ایم مشین میں ٹیکنالوجی سے نقب لگانے کا طریقہ اسکمنگ کہلاتا ہے اور نقب زنی کے لئے کبھی  اے ٹی ایم کی کارڈ سلاٹ پر دو نمبر کارڈ ریڈر چپکا دیا جاتا ہے یا کہیں دو نمبر 'کی پیڈ' اے ٹی ایم پر لگایا جاتا ہے۔

جرم کی اس کہانی میں ایک اور ٹوئسٹ خفیہ کیمرے کا ہے جس کی آنکھ اے ٹی ایم کا پن کوڈ ریکارڈ کرکے سارا ڈیٹا اپنے کرائم ماسٹر تک پہنچا دیتی ہے۔

مزید خبریں :