Time 18 جنوری ، 2018
بلاگ

جسٹس فار نقیب

نقیب اللہ محسود کی ایک فائل تصویر—۔فوٹو/ بشکریہ فیس بک

گذشتہ ہفتے کی شام کراچی میں ایک نوجوان انتظار حسین گاڑی نہ روکنے پر  اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) اہلکاروں کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا، لیکن جوں جوں کیس کھلا، معاملہ رُخ ہی بدلتا چلا گیا۔

انتظار حسین کے قتل کے الزام میں کئی پولیس اہلکار گرفتار ہیں اور تفتیش تیزی سے گرفتار پولیس اہلکاروں کے لیے مشکلات بڑھاتی چلی جارہی ہیں۔

ابھی 19 سالہ انتظار احمد کے قتل کی بازگشت ہی نہ تھمی تھی کہ کراچی پولیس کو ایک اور مشکل نے آن گھیرا ہے اور ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے مبینہ پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا معاملہ کافی گرم ہے۔

ابھی تک تو یہ معاملہ صرف سوشل میڈیا پر ہی سر اٹھا رہا ہے اور 'جسٹس فار نقیب' #JusticeForNaqeeb کا ٹرینڈ توجہ حاصل کرتا جارہا ہے، لیکن بہت جلد مرکزی میڈیا پر بھی یہ سندھ پولیس کے لیے مزید کئی سوالات کھڑے کردے گا۔

نقیب کون ہے؟

ایک خوش شکل، کسی ماڈل جیسی شخصیت کا مالک 27 سالہ نوجوان نقیب محسود، جس کا اصل نام نسیم اللہ محسود اور تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا، ہفتہ (13 جنوری)کے روز کراچی کے نواحی علاقے شاہ لطیف ٹاؤن کے قریب واقع عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک 'پولیس مقابلے' میں مار دیا گیا۔

اس پولیس مقابلہ ٹیم کی سربراہی کرنے والے آفیسر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اس طرح کے مقابلوں کے لیے شہرت رکھتے ہیں اور انہیں 'انکاؤنٹر اسپیشلسٹ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

13 جنوری کو ہونے والے پولیس مقابلے کے بعد راؤ انوار نے دعویٰ کیا کہ دہشت گرد تنظیم سے وابستہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے چھاپا مارا گیا اور جوابی فائرنگ میں 4 دہشت گرد مارے گئے۔

لیکن ایک دو روز گذرنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ہینڈسم نوجوان کی گردش کرتی تصویر دیکھ کر مجھ سمیت کئی لوگ حیران رہ گئے۔

پھر جب اس معاملے پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ نقیب کے دوست اس کے غم میں ہلکان ہیں۔ اس کے قریبی رشتے داروں کا الزام ہے کہ نقیب کو 3 جنوری کو کراچی کے علاقے چیپل سٹی کے قریب واقع شیر آغا ہوٹل سے سادہ لباس اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا اور پھر 13 جنوری کو 'مقابلہ' ہوگیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نقیب کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا، ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی جرم کا شبہ تھا تو اسے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔

13 جنوری سے 17 جنوری کی صبح تک اس نوجوان کی لاش وصول کرنے کوئی نہ آیا،کسی کو علم ہی نہ تھا۔ پھر جب علم ہوا تو رشتہ داروں کو یہ خوف ہوا کہ کہیں انھیں بھی دہشت گردی کے الزام میں دھر نہ لیا جائے۔ نقیب کے والدین، بیوی اور بچے (دو بیٹیاں اور ایک 2 سالہ بیٹا عاطف) جنوبی وزیرستان میں ہیں۔ستم یہ ہے کہ جب ایک قریبی عزیز لاش وصول کرنے پہنچا تو اسے بھی صبح سے شام ہوگئی۔

اب سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھنے کے بعد کراچی سمیت کئی پریس کلبوں پر احتجاج کا اعلان بھی ہوا ہے اور ٹی وی اخبارات میں بھی نقیب کی ہلاکت کے تذکرے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

یہ کوئی پہلا پولیس مقابلہ نہیں، جس پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہوں۔ ماضی میں بھی متعدد مرتبہ اس قسم کے پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھائے گئے، ایسے پولیس مقابلے بھی ہوئے، جن میں کئی وارداتوں کا ملبہ ڈال کر فائلوں کا پیٹ بھی بھر دیا جاتا ہے اور پروموشن کی سفارش بھی حاصل کرلی جاتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ مجرموں اور دہشت گردوں کے لیے کسی پاکستانی کے دل میں کوئی جگہ نہیں، لیکن اگر نقیب واقعی مجرم تھا تو اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا اور سزا دلوائی جاتی، مگر اب کیسے پتہ چلے گا کہ اصل معاملہ کیا تھا۔

انتظار اور نقیب جیسے نوجوانوں کی ہلاکت کراچی پولیس کی کارکردگی پر ہزاروں سوالات اٹھارہی ہیں۔کئی ایسے کیسز بھی ہیں جو میڈیا یا سوشل میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کرپاتے، کیا ان 'پولیس مقابلوں' کے لیے کبھی کوئی چیک اینڈ بیلنس نظام بن پائے گا؟

ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ ایسا ہو اور جلد از جلد ہو، تاکہ پھر کسی انتظار یا نقیب کے لواحقین انصاف کی تلاش میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپیل کرنے پر مجبور نہ ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔