پاکستان
Time 24 جنوری ، 2018

راؤ انوار کو بیرون ملک جانے سے روکنے والی ایف آئی اے ٹیم کیلئے تعریفی اسناد

اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو بیرون ملک جانے سے روکنے والی ایف آئی اے ٹیم کو وزیر داخلہ احسن اقبال نے تعریفی اسناد پیش کیں۔

اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے ایف آئی اے افسران کی چوکسی، مخلصی اور ایمانداری کو سراہا اور دیگر تمام سرکاری عہدے داروں پر زور دیا کہ وہ بھی اپنے فرائض قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مخلصی سے انجام دیں۔

خیال رہے کہ مبینہ پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کو ہلاک کرنے کے الزام میں معطل سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی اسلام آباد کے بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش ناکام بنادی گئی تھی۔

راؤ انوار نجی ایئر لائن سے گزشتہ روز اسلام آباد پہنچے تھے جہاں سے انہیں غیرملکی ایئرلائن کی پرواز سے دبئی جانا تھا۔

ذرائع کے مطابق بے نظیر بھٹو ایئرپورٹ پر ان کا سامان ایک اور شخص نے جمع کروایا جس کے بعد راؤ انوار براہ راست امیگریشن کاؤنٹر پر گئے جہاں موجود اہلکار نے ان سے این او سی طلب کیا۔

راؤ انوار کے پاس این او سی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے ایئرپورٹ پر موجود ایف آئی اے حکام نے انہیں ملک چھوڑنے سے روک دیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق راؤ انوار کو حراست میں نہیں لیا گیا کیونکہ انہیں گرفتاری کے احکامات موصول نہیں تھے جبکہ اس وقت راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں بھی شامل نہیں تھا۔

جیونیوز نے راؤ انوار کے دبئی جانے کے لیے لی گئی ٹکٹ کی کاپی حاصل کرلی تھی جس کےمطابق راؤ انوار اسلام آباد سے دبئی جارہے تھے اور انہوں نے ای کے 615 کا ٹکٹ لیا تھا اور ٹکٹ پر ان کا نام خان انوار درج ہے۔

راؤ انوار نے جس پرواز کا ٹکٹ لیا تھا اس کی روانگی کا وقت دوپہر ایک بج کر 10 منٹ تھا۔

اس حوالے سے راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انہیں مقدمے کا انتظار ہے، انہوں نے سنا ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جارہا ہے، اس لیے پہلے ایف آئی آر دیکھیں گے کہ ان پر کیا کیس بنایا گیا ہے اور کیا الزام ہے اس کے بعد آئندہ کی حکمت عملی طے کریں گے۔

انہوں نے کا کہا تھا کہ پولیس مقابلہ انہوں نے نہیں کیا، جس نے غلطی کی ہے اسے پکڑا جانا چاہیے۔

سابق ایس ایس پی ملیر کا کہنا تھا کہ وہ جب دبئی جانا چاہیں گے چلے جائیں گے، انہیں کون روکے گا، ان کے بچے دبئی میں رہتے ہیں، وہاں جانا ان کا حق ہے۔

نقیب اللہ کی ہلاکت

یاد رہے کہ راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقتول کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے تھا۔

تاہم نقیب کے اہلخانہ نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا جس کے بعد نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور چیف جسٹس پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔

بعدازاں سوشل میڈیا اور میڈیا پر معاملہ اٹھنے کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی تھی جس نے نقیب کو بے گناہ اور مقابلے کو جعلی قرار دیا۔

تحقیقاتی کمیٹی نے نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس پارٹی کے سربراہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرکے گرفتار کرنے اور نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی جس پر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

دوسری جانب نقیب اللہ کے قتل میں ملوث پولیس پارٹی کو بھی معطل کیا جاچکا ہے۔