بلاگ
Time 01 فروری ، 2018

تیرا گردہ میرا گردہ

برطانیہ میں 3 ملین مسلمان رہتے ہیں اور ان میں زیادہ تر کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے ، ان میں زیادہ تر کا تعلق انڈیا ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہے جنہوں نے برطانیہ آنے پر بڑے شہروں اور علاقوں میں رہنے کو ترجیح دی۔

برمنگھم ان شہروں میں سرفہرست ہے جہاں 21 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے، باقی لوگوں کے مقابلے میں مسلمانوں کو اعضا کا عطیہ ملنے میں تقریباً ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے یعنی اگر کسی مسلمان کو گردے یا جگر کا عطیہ درکار ہو تو اسے پورے ایک سال سے زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے اور برمنگھم میں اس کی مدت ایک سال سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے، کئی مسلمان مریض ویٹنگ لسٹ پر ہونے کے باوجود انتظار کرتے کرتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مذہب میں اجازت ہو بھی تو سماجی دباؤ اور دقیانوسی پرانی باتوں میں آکر لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں اور مریضوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

برطانیہ میں رہنے والے تمام افراد کے سامنے یہ سوال رکھا جاتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد رضاکارانہ طور پر اپنے جسم کے اعضا عطیہ کرنا چاہتے ہیں یا نہیں، اگر آپ مرنے کے بعد اپنے اعضا کو عطیہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک کارڈ ایشو ہوجاتا ہے جو آپ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ اعضا کا عطیہ دو طرح کا ہوتا ہے۔

(زندہ عطیہ-لائیو ڈونیشن) یعنی کوئی زندہ شخص اپنا کوئی اعضا کسی دوسرے شخص کو اپنی زندگی میں عطیہ کردے اسے کہتے ہیں زندہ عطیہ۔ دوسری قسم اس عطیے کی ہے جس میں مردہ انسان کے جسم کا کوئی حصہ ایک زندہ انسان کی زندگی بہتر بنانے یا زندگی بچانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اصل بحث مرنے کے بعد والے عطیے پر ہے۔ اعضا عطیہ کرنے والے مسلمانوں کی کمی صرف برطانیہ میں نہیں ہے بلکہ پاکستان میں بھی یہ ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔

ایس آئی یو ٹی کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی اس معاملے کو اجاگر کرتے کرتے بوڑھے ہوگئے مگر آج بھی مسلم علمائے کرام کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔

اپریل 2015 میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے علما کراچی یونیورسٹی میں جمع ہوئے اور اعضا کی پیوندکاری پر سیر حاصل بحث ہوئی ۔ کئی علما نے اعضا کی پیوندکاری کے حق میں دلائل بھی دیئے، بحث مباحثہ ہوا مگر نتیجہ لوگوں تک نہیں پہنچ سکا جب کہ بعض علماء نے اس کی مخالفت بھی دلائل دیے کہ یہ اللہ کے کام میں مداخلت ہے۔

قرآن کی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 260 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 

" جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرے مالک ! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ فرمایا: کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ اس نے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔ فرمایا : اچھا، تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لو کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے۔ "

اس آیت کی روشنی میں علماء کو اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ وہ خدائے ذوالجلال ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور قیامت کے دن گردے اور جگر کے لاپتا ہوجانے والا مسئلہ کائنات کے خدا کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

ڈاکٹر مجدی یعقوب لندن میں نیفولوجی کے پروفیسر ہیں ، آپ کئی سال این ایچ ایس کے لئے کام کرتے رہے سے منسلک ہیں ۔Centre for Translational Medicine & Theraputicsputicsاور اب جو کہ ویلئم ہاروے ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا حصہ ہے ، آپ کئی سال سے ڈیپارٹمنٹ آف رینل میڈیسن اینڈ ٹرانسپلانٹیشن ، بارٹس ہیلتھ این ایچ ایس ٹرسٹ ، یو کے کے اکیڈمک ڈائریکٹر بھی ہیں ۔ آپ کا آفس وائٹ چیپل میں موجود رائل لندن اسپتال میں ہے ، وائٹ چیپل اور اس کے گردونواح میں میرے اندازے کے ان کے زیادہ تر مریض مسلمان ہیں اور تقریباً 50 فیصد کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ ڈاکٹر مجدی یعقوب ایک پاکستانی برٹش ڈاکٹر ہیں اور ٹرانسپلانٹیشن کے موضوع پر گھنٹوں بات کرسکتے ہیں ، آپ کی ساری زندگی کڈنی (گردے) کے مریضوں کا علاج کرتے اور ریسرچ کرتے گزری ہے ۔

ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ 1995میں مسلم لا (شریعت) کونسل یوکے اعضا کی پیوند کاری پر اپنا فتویٰ دے چکا ہے۔ کونسل کے فتوے میں علماء اس بات پر متفق تھے کہ مذہب اسلام میں اعضا کی پیوند کاری کسی کی تکلیف کو کم کرنے کے لئے یا جان بچانے کے لئے کی جاسکتی ہے۔ مسلمان اگر ڈونر کارڈ لے کر گھومنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے اگر کوئی مسلمان بغیر فیصلہ کئے مر جائے کہ وہ اپنے اعضا عطیہ کرنا چاہتا ہے یا نہیں تو اس کے قریبی رشتے دار بھی مرنے والے کے جسم کے اعضا عطیہ کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔

ویسے تو اسلام میں زندہ ہو یا مردہ انسانی جسم کی حفاظت کرنا فرض ہے مگر کسی کی جان بچانے کے لئے اعضا کی پیوندکاری میں کوئی قباہت نہیں ۔

ڈاکٹر مجدی نے سمجھایا کہ مسئلہ صرف مذہب کا نہیں ہے مسئلہ سماجی اور ثقافتی نوعیت کا ہے ’میں گردہ لوں گا، دوں گا‘ نہیں والی سوچ تمام مذاہب کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ برصغیر کے علاوہ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں یہی صورتحال ہے۔

حال ہی میں ڈاکٹر مجدی یعقوب کے ہم نام ہارٹ سرجن سر مجدی یعقوب کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔

سر مجدی یعقوب نے برطانیہ میں سب سے زیادہ ٹرانسپلانٹ آپریشن کرنے کا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے ۔ سر مجدی یعقوب انگریزی اخبار روزنامہ مرر کی نئی مہم کے حق میں باتیں کر رہے تھے جس کے مطابق اعضا کی پیوندکاری کے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ نئے قانون کے مطابق تمام این ایچ ایس کے مریض ڈونر سمجھ جائیں گے اس وقت تک جب تک کہ وہ خود لکھ کر نہ دے دیں کہ وہ ڈونر نہیں بننا چاہتے یہ سسٹم ویلز میں متعارف کروایا گیا تھا اور اسکاٹ لینڈ نے بھی اسے اپنا لیا ہے ۔ انگلینڈ میں لوگوں کو ابھی بھی ڈونر کارڈ دیا جاتا ہے اور لوگوں کو رجسٹر کرنا پڑتا ہے ۔

یہ سارے قوانین اس لئے متعارف کروائے جارہے ہیں کیونکہ پچھلے سال برطانیہ میں ڈونر نہ ہونے کی وجہ سے 470 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، حالانکہ یہ تمام بد قسمت آفیشل ڈونر لسٹ پر بھی تھے، ان 470 لوگوں میں 14 بچے بھی شامل ہیں۔

جب کوئی بیمار ہو جاتا ہے اور اسے اعضا کی پیوندکاری کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کے گردہ مسلمان کا ہے یا نہیں ، گردہ مسلمان اور ہندو نہیں ہوتا ، گردہ گردہ ہوتا ہے ، گھر والے یہ ڈونیشن لینے کے لئے بھاگے چلے آتے ہیں تاکہ ان کے پیارے کی جان بچائی جاسکے مگر دینے کے وقت ہم ایسے نہیں سوچتے ، اگر ہمارے جسم کا کوئی حصہ جو مرنے کے بعد کسی کام کا نہیں ہے کسی انسان کو لگ جائے اور اس کی جان بچ جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔

تمام مذہبی عقائد رکھنے والوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اپنے لئے یا اپنے کسی عزیز کے لئے جسم کا کوئی حصہ لینے کو تیار ہیں تو دینے کو تیار کیوں نہیں ہیں۔

ایدھی صاحب نے مرتے ہوئے اپنی آنکھیں کچھ بچوں کو عطیہ کردی تھیں۔ حال ہی میں میں نے فیس بک پر ایک مشہور عالم دین کا بیان سنا۔ مولانا صاحب مرحوم عبدالستار ایدھی کی اس بات کو نشانہ بنا کر، تنقید کررہے تھے ، مولانا کا کہنا تھا کہ جب خدا نے کسی کی آنکھیں چھین لی ہوں تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کو آنکھیں دینے والے۔

یہ سن کر میں نے سوچا کہ قبلہ کو ایک تالا تحفے میں دیا جائے تاکہ وہ اپنے مدرسے پر لٹکا سکیں، کیونکہ جب خدا نے کسی کو غیر مسلم گھر میں پیدا کردیا ہے تو مولانا صاحب کون ہوتے ہیں اسے سمجھانے والے۔

مولانا کی دلیل سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ سارے اسپتال بند کردینا چاہیٗیں کیونکہ جب بیماری خدا نے دی ہے تو علاج کروانا کہاں کی سمجھداری ہے۔ مولانا صاحب کی منطق میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

جہاں تک میں جانتا ہوں قرآن کریم میں اللہ رب العزت سورۃ المائدۃ میں فرماتا ہے کہ

"جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی "۔

جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔