ایوارڈز ایک اعزاز ہے یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس؟

پاکستان کے غالباً اس وقت کے سب سے بڑے ایوارڈز لکس اسٹائل ایوارڈز 2018 کی نامزدگیاں سامنے آچکی ہیں۔ ان ایوارڈز میں پچھلے سال فلمی دنیا، ماڈلنگ ،موسیقی اور ٹی وی ڈراموں سمیت مختلف شعبہ جات میں ”بہترین کارکردگی “ دکھانے والے اداکار،گلوکار اور ہدایتکار سمیت ٹیلنٹ کو سب کے سامنے ایوارڈ دیا جائے گا۔

ایوارڈز کوئی سے بھی ہوں پاکستان اور بالی وڈ میں تو ان ایوارڈز اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے ۔کوئی ایوارڈز کو مانتا نہیں ،تو کوئی ان ایوارڈز میں جاتا نہیں،کوئی جاتا ہے تو تعلقات کی وجہ سے، تو کوئی بڑی رقم بطور فیس ملنے کی وجہ سے ۔کسی کی نئی فلم کی پروموشن مفت میں ہوجاتی ہے تو کوئی اسٹیج پر پرفارم کر کے یا اپنے جوہر دکھا کر کام پکڑ تا ہے کسی کے لیے ریڈ کارپٹ پر اپنا سب سے نیا لیکن اکثر مفت کا ڈریس دکھانے کا پورا موقع ہوتا ہے ۔

پہلے فلم فیئر ایوارڈز کے بھی بڑے چرچے ہوتے تھے اب بھی یہ ایوارڈ سب سے مقبول ہے لیکن سب سے معتبر ہر گز نہیں۔ان ایوارڈز کیلئے اداکاروں کو پَر کھا کیسے جاتا ہے اس پر تو وہاں کے معتبر ترین اور کمرشل ازم سے دور ”نیشنل ایوارڈز “ پر بھی سوالات اٹھ گئے ہیں۔

عامر خان کو پچھلے سال ”دنگل “ پر محض اس لیے ایوارڈ نہیں دیا گیا کہ وہ ایوارڈز کی تقریبات میں آتے نہیں۔یہی فارمولا کچھ سالوں سے فلم فیئر سمیت کئی ایوارڈز والوں نے اپنا لیا ہے کیونکہ عامر خان ایوارڈز میں آتے نہیں اور نہ ہی ان ایوارڈز کو مانتے ہیں تو تقریب کا آخری ایوارڈ پھیکا جانے کی توقع ہوتی ہے ۔

اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ ایوارڈز والوں کو سب سے بہترین یا کامیاب کارکردگی کی نہیں بلکہ اس اداکار اور سپر اسٹار کی تلاش ہوتی ہے جو ان کی تقریبات میں مفت آئے کبھی ایوارڈز میں پرفارم کرے اور کبھی میزبانی۔عظیم اداکار دلیپ کمار کے وقت جو فلم فیئر ایوارڈز کی مورتی کی قدر تھی اب اس میں کمی آچکی ہے۔

فارمولا کبھی تو بنانا ہوگا کیونکہ اگر بہترین اداکار کو کریٹکس کا ایوارڈ دیا جاتا ہے تو سب سے بڑی ہٹ دینے والے اداکار کو بہترین اداکار کا، تو اس داغ سے جو دکھانے کیلئے اچھا ہوتا ہے سلمان خان کا دامن مکمل صاف ہے ۔دوسری طرف دو نیشنل ایوارڈز جیتنے والے اجے دیوگن آج تک بہترین اداکار کا فلم فیئرایوارڈ نہیں جیت سکے لیکن آٹھ بار فلم فیئر کا بہترین اداکار کا ایوارڈ جیتنے اور 20 سے بھی زیادہ نامزدگیاں حاصل کرنے والے شاہ رخ خان کو کبھی نیشنل ایوارڈ نہیں دیا گیا۔

خیر اب گزشتہ چند سالوں سے ایوارڈز کی تقریبات میں کوئی بھی سرپرائز ہو وہ کسی کیلئے جھٹکا نہیں ہوتا ۔کیونکہ اب سب جانتے ہیں ایوارڈز کی تقریب خود ایک کمرشل پروڈکٹ ہے جس میں تنازعات اور لڑائیاں”اسٹیج“کروا کر جھلکیوں کی شکل میں دکھا کر ایوارڈز کی شان بڑھائی جاتی ہیں پھر مہنگے داموں ٹی وی پر اور انٹرنیٹ پر دکھائی جاتی ہیں۔کوئی بڑا اسٹار ہو یا یادگار پرفارمنس لیکن اگر جیوری کیلئے پسندیدہ نہیں تو اکثر ایوارڈ ملنا تو دور کی بات نامزدگی تک بھی نہیں ملتی۔

اب وہاں تو ایوارڈز اتنے ہوتے ہیں کہ فہرست بنانے میں بھی وقت لگ جاتا ہے بلکہ پچھلے سال تو تین چار ایوارڈز کی تقریبات سال ختم ہونے سے پہلے ہی نمٹادی گئی تھیں۔

چلیں اب اپنے سب سے بڑے ایوارڈز کی فلمی کیٹگریز کی بات کرتے ہیں۔

پاکستان میں اس سال 15 سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں ۔ہمارے خیال میں اتنی مشکل اور زیادہ تر مالی نقصان سے دوچار ہونے والی انڈسٹری میں ہر فلم بنانے والے کو ان ایوارڈز میں ایک ایک خصوصی ایوارڈ آخر میں ضرور دینا چاہیے کیونکہ اس صورتحال میں سب نے بڑا رسک لے کر فلمیں بنائی اور اپنا حصہ ادا کیا جس کے فوائد ابھی نہیں کچھ سالوں بعد یقینا نظر آئیں گے۔

ایوارڈز کی نامزدگیاں کتنی ہی محنت اور مشقت کے بعد جاری کی جائیں ان پر سوالات اٹھتے ہی ہیں ۔

اگر لکس اسٹائل میں بہترین فلم کی نامزدگیوں پر نظر ڈالی جائے تو یہاں پانچ فلموں کو چُنا گیا ہے ان میں سے سب سے پسندیدہ فلم ’پنجاب نہیں جاوں گی‘ ہے ۔اس فلم کا اس سال کسی فلم سے کوئی مقابلہ نہیں لیکن اگرباقی فلموں کا انتخاب کرنا ہی تھا تو ’نامعلوم افراد ٹو‘ اور ’ورنہ‘ کا انتخاب صحیح لگتا ہے۔

 لیکن فلم ’چھپن چھپائی‘ اور ’بالو ماہی‘ کے نام لسٹ پڑھنے والوں کے منہ چڑاتے ہیں کیونکہ ان دونوں فلموں سے کئی زیادہ بزنس ’مہرالنساء وی لب یو‘ نے کیا اور وہ بھی آدھی سے زیادہ اسکرین ’یلغار‘ کے ہاتھوں چھن جانے کے باوجود اور اگر معیار کی بات ہو تو ’ارتھ ٹو‘ میں اسٹار ڈم اور تجربہ تھا اور ’چلے تھے ساتھ‘ میں پاکیزگی اور جدت اور ’تھوڑا جی لے‘ میں ہمت۔

سب سے الگ ’ساون‘ کو ان میں سے اکثر فلموں پر ترجیح دے کر آسکر کیلئے بہترین پاکستانی فلم چنا گیا تھا لیکن اُس فلم کی بھی یہاں دال نہیں گلی ۔البتہ اِس فلم نے پچھلے سال ہی کئی بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کیے۔

بہترین اداکار کی فہرست کچھ جمی نہیں اب اس موجودہ فہرست کے حساب سے تو ہمایوں سعید کا ایوارڈ پکا ہے یا کہیں کہ اس مقابلے کو آسان بنادیا گیا ہے۔کیونکہ ان کے مقابل نامعلوم افراد 2کے دو نسبتا کمزور کردار چنے گئے ہیں۔

فہد مصطفی کی تو نامزدگی تو پھر بھی بنتی ہے لیکن محسن عباس حیدر کی اینٹری اور جاوید شیخ کی غیر حاضری نے یقینا سب کو مایوس کیا ہے ۔

اب جاوید شیخ کو تو ایوارڈ کی ضرورت نہیں لیکن ان کے کام اور اداکاری سے ہمایوں کیلئے مقابلہ ضرور پیدا ہوتا ہے۔جاوید شیخ کو بہترین معاون اداکار کی کیٹگری میں نامزد کرنا اورمحسن عباس کو یہاں جگہ دینا کہیں اس بات کا اشارہ تو نہیں کہ اس سال میزبانی کے فرائض محسن عباس حیدر بھی ادا کریں گے؟

ایسا نہیں کہ کسی کو ان کے ٹیلنٹ پر شک ہے کیونکہ وہ بہت محنتی اور ٹیلنٹڈ اداکار ہیں لیکن اسی طرح ڈراموں کی کیٹگری میں ”مقابل“ سے انھیں نامزدگی دی گئی لیکن مقابل کے اصل کردار آصف رضا میر کو نظر انداز کردیا گیا۔

محسن کی طرح احسن خان اور عثمان خالد بٹ کی نامزدگیاں بھی بہت کمزور ہیں اور ہوسکتا ہے یہ دونوں بھی محسن کے ساتھ ایوارڈز میں پرفارم یا میزبانی کرتے نظر آئیں۔بہترین اداکار کیلئے اگر ’ارتھ ٹو‘ سے شان، ’نامعلوم افراد ٹو‘ سے جاوید شیخ اور ’ورنہ‘ سے ضرار خان کا انتخاب کیا جاتا تو بہترہوتا۔

جاوید شیخ نے کردار میں رنگ بکھیر کر سب کو دیوانہ بنایا ہی دوسری طرف ضرار خان نے بھی سال کا سب سے بڑا سرپرائز دیا اور ولن کے روپ میں خوب نفرتیں سمیٹیں۔

ارتھ ٹو کے مسائل اور ناکامی اپنی جگہ لیکن شان کی ایکٹنگ سے ان کی کم از کم ایوارڈ میں نامزدگی تک تو بنتی تھی اب چاہے وہ ان ایوارڈز کی تقریب میں آئیں نہ آئیں۔

عثمان ،محسن اور احسن کے مقابلے میں دانش تیمور نے مہرالنسا وی لب یو میں پوری فلم کا بوجھ اٹھایا اور کامیاب کرایا لیکن انھیں بھی کوئی جگہ نہیں ملی۔اب تو یہ ایوارڈ ہمایوں سعید کا پکا ہے۔

لسٹ اگر آگے پیچھے ہوتی تو بھی غالبا ان کا ایوارڈ ہی پکا ہوتا اور ظاہر ہے فہرست بنانے میں ہمایوں کا کوئی ہاتھ نہیں لیکن دیکھنے والوں کا تجسس اب ختم کیونکہ اب اس کیٹگری میں ہمایوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔

بہترین اداکارہ کی لسٹ واحد فہرست ہے جس کے بارے میں سب سے کم شکایت کی جاسکتی ہے۔کیونکہ نامزدگیاں سب صحیح ہیں لیکن ایک نامزدگی کا اضافہ کر کے” چلے تھے ساتھ“ کی سائرہ شہروز کا نام فہرست میں شامل ہونا چاہیے تھا۔یہاں مہوش حیات کی کامیابی اور یادگار اداکاری کی وجہ سے سب جانتے ہیں کہ ایوارڈ انہی کا ہوگا اور کسی کا نہیں ۔

اگر انھوں نے اپنی تقریر بھی تیار کرلی ہوگی تو اس میں کسی کو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ماہر ہ خان نے ’ورنہ‘ اور عظمی حسن نے ’ارتھ ٹو‘ میں مشکل کرداروں کو بخوبی نبھایا لیکن مہوش کی بڑی کامیابی کی وجہ سے وہ یہ ایوارڈ جیتنے سے میلوں دور لگتی ہیں۔

ایوارڈ تو نہیں ملے گا لیکن دونوں کے یادگار کرداروں کو دیکھنے والے ان کی اداکاری کی وجہ سے برسوں یاد رکھیں گے۔’بالو ماہی‘ میں عینی اور ’چھپن چھپائی‘ میں نیلم منیر بہت خوبصورت دِکھیں لیکن سائرہ شہروز کی ”چلے تھے ساتھ“ میں کے کردار میں خوبصورتی کے ساتھ معصومیت اور پاکیزگی کا جواب نہیں۔

بہترین فلم ، ادا کار اور اداکارہ کے بعد اُس شعبے کی بات کرتے ہیں جس میں اس سال ہم بالی وڈ سے بھی آگے رہے وہ شعبہ ہے موسیقی کا۔پچھلے سال پورا بالی وڈ پرانے گانوں کے نئے ریمکس کے پیچھے بھاگتا رہا اور یہاں لاجوا ب میوزک تخلیق کیا جاتا رہا۔

بہترین میوزک ڈائریکٹر کے نام تو سامنے نہیں آئے اگر یہ کیٹگری ہوئی تو مقابلہ سخت ہوگا لیکن ساحر علی بگا کا ایوارڈ جیتنا لگ بھگ طے ہے ۔شانی ارشد اور شیراز اپل نے بھی زبردست کام کیا۔ ’مہرانساء وی لب یو‘ کے گانے بھی پڑوسی ملک کے نئے موسیقار سیماب سین نے مقبول کروائے اور ’ورنہ‘ کے گانے بھی ہَٹ کر تھے ۔

بہترین گلوکار کی نامزدگی میں راحت فتح علی خان کا” سنوار دے خدایا “ پسندیدہ ہے ۔لیکن ان کو ’ارتھ ٹو‘ کے گانے مرشد جی سے نامزدگی نہیں ملی،یہاں ساحر علی بگا کو نامزدگی دی گئی ہے ویسے راحت فتح علی خان کا ’بالو ماہی‘ کا ’رنگ دے چنر‘ اور ’راستہ کا دل فقیر‘ بھی نامزد ہوتا تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

اس کیٹگری میں بھی کمزور کڑیاں موجود ہیں جن میں نامعلوم افراد ٹو میں محسن عباس کا ’ہیرے‘ ، چھپن چھپائی کا ’صدقہ‘ اور ہارون شاہد کا ’سنبھل سنبھل‘ کر شامل ہیں۔ان گانوں کو یا آوازوں کو راحت فتح کے گانوں کے ساتھ فلم پنجاب نہیں جاوٴنگی کے شیراز اپل اور جابر عباس کے ’مجھے رانجھا بنادوں‘ اورشفقت امانت علی کے ’تیرے نال‘ جیسے گانوں پر کیوں ترجیح دی گئی وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

’مہر النساء وی لب یو‘ میں سکھویندر کا ’تو ہی تو‘،ارمان ملک کا ’بیلیا‘ یا نقاش عزیز کا ’مرحبا‘ میں سے بھی کم از کم ایک گانے کی انٹری بھی بنتی تھی پھر ’سنبھل سنبھل‘ میں جہاں جہاں گانا ہارون نے گایا وہ نسبتا کمزور گیا لیکن جہاں جہاں زیب بنگش کی آواز آئی کانوں کو اچھی لگی۔

اتنے اچھے پلے بیک کے باوجود زیب کو نامزدگی ہی نہیں دی گئی حالانکہ اس بار تواس گانے کی وجہ سے ان کو ایوارڈ کیلئے پسندیدہ ہونا چاہیے تھا۔لیکن اب ایوارڈ کس کو ملے گا چننا مشکل ہے۔آئمہ بیگ کے دونوں گانوں کیلئے جنیتا گاندھی اور نرمل رائے کے گانے چیلنج ہیں اور ثنا ذولفقار کا گانا بھی سرپرائز ہوسکتا ہے ۔جس طرح زیب بنگش کو آوٴٹ کیا گیا اسی طرح بہترین معاون اداکارہ کے ایوارڈ کی فہرست میں ژالے سرحدی کو ’چلے تھے ساتھ‘ میں سے اِن کا کیا گیا ہے۔

موجودہ فہرست میں سے ایوارڈ ’بالو ماہی‘ کی صدف کنول کا بنتا ہے جن کی اسکرین اپیئرنس اور اداکاری ’بالو ماہی‘ کا سب سے بڑا مثبت پہلو تھا۔’بالو ماہی‘ سے ہی دردانہ بٹ اور ’ارتھ ٹو ‘سے حمیمہ ملک کا تو کوئی چانس نہیں لیکن تھوڑا سا مقابلہ ’پنجاب نہیں جاوٴنگی‘ کی دردانہ یعنی عروہ دے سکتی ہیں جن کیلئے بولا گیا مکالمہ ”ہیلپ می دردانہ“ تو سدا بہار ہوگیا لیکن اداکاری میں ہمارے خیال میں صدف کنول تھوڑے سے زیادہ نمبر لے گئیں ۔

اس ایوارڈز کی لسٹ میں سب سے زیادہ حیرت ’پنجاب نہیں جاوٴنگی‘ کی نوید شہزاد کے نام کی غیر حاضری سے ہوئی۔وہ جو اس ایوارڈ کیلئے سب سے زیادہ پسندیدہ ہوتی ان کا نام ہی پوری لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔نام چننے والوں نے فلم تو ضرور دیکھی ہوگی لیکن اسی فلم سے سہیل احمد کو بطور بہترین معاون اداکار نامزد کرنے والوں کی آنکھوں سے نوید شہزاد کیسے اوجھل ہوئیں یہ ایک پہیلی ہے ۔

بہترین معاون اداکار کی کیٹگری کی بات ہو تو جاوید شیخ کی اینٹری یہاں نہیں بنتی تھی ان کو بہترین اداکار میں نامزد ہونا چاہیے تھا۔’پنجاب نہیں جاوٴنگی‘ سے سہیل احمد صاحب اس ایوارڈ کیلئے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔گوہر رشید کی رنگریزہ سے نامزدگی صحیح لگتی ہے کچھ ایسا ہی ’چھپن چھپائی‘ کے فیضان خواجہ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے لیکن ’ورنہ‘ کے مکار وکیل رشید ناز ’مہراالنسا وی لب یو‘ کے والد والے ثاقب سمیر اور ’یلغار‘ میں کسی ایک اداکار کی اس لسٹ میں اینٹری بھی ہونا چاہیے تھی۔

اب آخر میں بات ٹیم کے کپتان یعنی ڈائریکٹرز کی، نبیل قریشی جیسے کامیاب نڈر نوجوان اور عظیم ڈراموں اور فلموں کے خالق(اس فہرست میں ورنہ بھی شامل ہے ) شعیب منصور کی موجودگی کے باوجود اس ایوارڈ کیلئے ندیم بیگ فیورٹ ہیں اور یہی ان کیلئے اعزاز بھی ۔

 ندیم نے ہر شعبے میں اپنی کمانڈ کا مظاہرہ کیا جب کہ ان کی فلم ’ورنہ‘ اور ’نامعلوم افراد ٹو‘ سے کافی زیادہ کمرشل اور زیادہ کامیاب رہی۔اسی لیے یہ ایوارڈان کو ہی کیچ کرنا ہوگا۔

نوٹ :

ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا، اُس فلم کیلئے کام کرنے والا فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔

ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے ۔فلم کا ساوٴنڈ،فریمنگ،میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی ، ایل ای ڈی،موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔

فلم یا ٹریلر کا ریویو اورایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے ،جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔

غلطیاں ہم سے ،آپ سے ،فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں ۔

مزید خبریں :