21 فروری ، 2018
کیا! مہوش حیات کو فلم 'پنجاب نہیں جاؤں گی' کے لیے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ نہیں ملا؟
دیر رات چیمپئنز لیگ میں بارسلونا اور چیلسی کا میچ برابر ہونے کے بعد جب نیند میں ہونے کے باجود ٹوئٹر اور فیس بک پر نظر کے گھوڑے دوڑائے تو فوراً ہی ایک جھٹکا لگا لیکن دل نے حوصلہ دیا کہ سوشل میڈیا کی معلومات غلط بھی ہوسکتی ہیں اور اس اطمینان کے بعد جب آفیشل ویب سائٹ دیکھی تو وہ ابھی اپ ڈیٹ نہیں ہوئی تھی، بس پھر کیا تھا نیند نے صبح تک کے لیے قابو کرلیا۔
صبح ”ویب سائٹس“ دیکھیں تو یقین آگیا کہ ناممکن کچھ نہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے ایوارڈز کی نامزدگیوں نے پہلے ہی کیا کم حیران کیا تھا کہ اب ان ایوارڈز میں جیتنے والوں کی لسٹ نے اور سرپرائز دے دیا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ ایوارڈ کسی ایک کو دیا جاتا ہے، یہ بات بھی درست ہے کہ باقی عوام کی پسندیدگی کو اپنی ڈھال بنا کر پیش کیا جاتا ہے، یہ بھی سب جانتے ہیں کہ تمام تر نیک نیتی کے باوجود تنازعات کھڑے ہوسکتے ہیں اور یہ بھی غلط نہیں کہ ایوارڈز کرانے والوں کی اپنی مجبوریاں اور کمرشل مسائل ہوتے ہیں۔
لیکن اس سال تمام تر کمرشل پہلوؤں، مہمان نوازی، فیورٹ ازم، مجبوریوں اور پروموشن کے بعد بھی یہ تو یقین تھا کہ چلیں نامزدگیوں میں جو ہوا وہ ہوا، کم از کم ایوارڈز دیتے وقت سمجھوتے نہیں کیے جائیں گے۔
جس طرح نامزدگیوں کے وقت بہترین اداکار کی لسٹ میں جاوید شیخ کو فلم 'نامعلوم افراد 2'، شان کو فلم 'ارتھ2' اور ضرار خان کو فلم 'ورنہ' سے باہر رکھا گیا اور عثمان خالد بٹ، احسن خان اور سب سے بڑھ کر محسن عباس حیدر کو وہاں زبردستی ڈالا گیا۔
بہترین گلوکارہ کی لسٹ میں زیب بنگش کو نہیں رکھا گیا، بہترین معاون اداکارہ کی لسٹ میں نوید شہزاد نہیں تھیں جبکہ بہترین اداکارہ کی فہرست میں سائرہ شہروز کا نام نہیں تھا۔
بہترین گلوکار کی لسٹ میں شیراز اپل اور جابر عباس غائب تھے۔ بہترین فلم کی لسٹ میں ”مہرالنساء وی لب یو“ کو شامل نہیں کیا گیا، ’ورنہ‘ کے مکار وکیل رشید ناز کو بھی بہترین معاون اداکار کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
خیر ان تمام مسائل کے باوجود اب ایوارڈز دیتے وقت جو لسٹ میں موجود ہیں ان میں سے بہترین کو ہی ایوارڈ دیا جائے گا کیونکہ ایسی کیٹیگریز بہت کم ہیں جہاں اب مقابلہ ففٹی ففٹی یا انیس بیس تو کیا (نائنٹی ٹین) بھی نہیں بچا تھا۔
نامزدگیوں کے حساب سب سے بہترین کیٹگری بہترین اداکارہ کی تھی۔ یہاں پر سال کی سب سے کامیاب فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کی مہوش حیات کے ساتھ ’ورنہ‘ کی ماہرہ خان اور ’ارتھ‘ کی عظمیٰ حسن بھی موجود تھیں۔
دونوں نے مشکل کرداروں کو بخوبی نبھایا لیکن مہوش کی یادگار اداکاری، اسٹائل، حسن اور بڑی کامیابی کی وجہ سے مہوش کا ان دونوں سے آگے نکل جانا طے تھا کیونکہ ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ سال کی سب سے بڑی اور کامیاب فلم تھی اور اس فلم کی جان مہوش حیات کا کردار تھا۔
لیکن ایوارڈز والوں نے بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ماہرہ خان کو دے کر سب کو حیران کردیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ماہرہ پاکستان کی سب سے بڑی سپر اسٹار ہیں اور ’ورنہ‘ میں ان کی اداکاری بھی بہت اچھی تھی لیکن ان کا یہ ایوارڈ بنتا نہیں تھا، یقیناً اس ایوارڈ کے بعد کئی سوالات اور بیانات سامنے آئیں گے۔
بہترین فلم، بہترین ڈائریکٹر اور بہترین اداکار کا ایوارڈ مہوش حیات کی فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی' کو ہی اور اس کے ڈائریکٹر ندیم بیگ اور ہمایوں سعید کو ملا۔
بہترین فلم اور ڈائریکٹر کے ایوارڈز میں تو کوئی بحث ہی نہیں، نہ ہی بہترین اداکار کے ایوارڈ میں ہے ۔ یہ ایوارڈ ہمایوں سعید کو ہی ملتا لیکن ہمایوں کو یہ ایوارڈ جاوید شیخ، ضرار خان اور شان سے مقابلے کے بعد ملتا تو اس ایوارڈ کی شان اور بڑھ جاتی۔
بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کے سہیل احمد صاحب کا حق تھا جو جاوید شیخ کو دیا گیا۔ جاوید شیخ صاحب کی فلم میں اداکاری پر کوئی دو رائے نہیں لیکن وہ 'نامعلوم افراد' کے ہیرو تھے اور ان کی نامزدگی بہترین اداکار کی فہرست میں ہونی چاہیے تھی۔
ایوارڈز کی رات بہترین گلوکارہ کا ایوارڈ آئمہ بیگ کو فلم 'نامعلوم افراد 2' کے ”کیف و سرور“ سے ملا جو ورنہ کی زیب بنگش کی ”غیر حاضری“ کی وجہ سے انہی کا بنتا تھا۔
بہترین گلوکار کا ایوارڈ راحت فتح علی کو فلم ’ارتھ‘ کے گانے پر دیا گیا، اس ایوارڈ پر تو کوئی شکایت نہیں لیکن راحت کی اس سال اور نامزدگیاں بھی ہونی چاہیے تھیں، ساتھ میں ’مہرالنسا وی لب یو‘ کے سکھویندر سنگھ سے مقابلہ بھی۔
بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ ایسا فلمی ایوارڈ تھا جہاں ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کی نوید شہزاد کی ”غیر حاضری“ کی وجہ عروہ حسین اور صدف کنول کے درمیان سخت مقابلہ تھا، ایوارڈ دونوں میں سے کسی کو بھی مل سکتا تھا اور آخر میں یہ بازی عروہ نے اپنے مشہور کردار ”دردانہ“ سے جیت لیا۔
ایوارڈز دینا بہت مشکل کام ہے جس میں سب کو خوش رکھا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں لکس اسٹائل ایوارڈز بہرحال اپنی مثبت کوششیں اور کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن چونکہ یہ پاکستان کے سب سے بڑے ایوارڈز ہیں تو ان کو کم از کم کمرشل مسائل اور سب سے اہم ایوارڈز پر سمجھوتے نہیں کرنے چاہئیں۔
پاکستان میں پچھلے سال 15 سے زائد فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ہمارے خیال میں اتنی مشکل اور زیادہ تر مالی نقصان سے دوچار ہونے والی انڈسٹری میں ہر فلم بنانے والے کو اس تقریب میں ایک ایک خصوصی ایوارڈ آخر میں ضرور دینا چاہیے تھا کیونکہ اس صورتحال میں سب نے بڑا رسک لے کر فلمیں بنائیں اور اپنا حصہ ادا کیا جس کے فوائد ابھی نہیں لیکن کچھ سالوں بعد یقیناً نظر آئیں گے۔
اس کے علاوہ فلم کی کیٹگریز بڑھانے کی بھی ضرورت ہے، امید ہے اگلے سال کم از کم بہترین عکاسی، بہترین مکالمے، بہترین موسیقی، بہترین کہانی، بہترین لرکس کے ایوارڈز سمیت ٹیکنیکل ایوارڈز بھی تقریب میں شامل کیے جائیں گے۔
نوٹ :
1۔ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا، اُس فلم کے لیے کام کرنے والا فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔
2۔ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کے لیے بنتی ہے ۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما میں ہی آتا ہے۔ آپ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں اور ”ونرز“ پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے، جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
اپنی رائے کا اظہار کرتے جائیں: