Time 24 فروری ، 2018
بلاگ

مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک اور امتحان

آخرکار سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو پارٹی کی صدارت سے بھی محروم کر دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے یہ فیصلہ اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے مفاد عامہ کی بنیاد پر دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے بعد کیا۔ 

سماعت کے مکمل ہونے پر اپنے جاری کئے جانے والے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ سے منظور شدہ الیکشن بل 2017 کی شق نمبر 203 کو، آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہوئے یہ فیصلہ جاری کیا کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نا اہل قرار دیئے جانے والا شخص کسی صورت بھی پارٹی کی صدارت کے عہدے کے لئے اہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

نہ صرف یہ بلکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نوا ز شریف کی جولائی دو ہزار سترہ میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نا اہلی کے بعدان کے بطور پارٹی صدر کئے گئے تمام تر فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے کا فوری اثر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹ کا انتخاب لڑنے والے امیدواروں پر ہوا۔ 

فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چار آپشنز پر غور کیا جن میں انتخاب کو ملتوی کرنا، مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو عمل سے باہرکر کے وقت پر انتخاب کروانا، تاریخ میں توسیع تاکہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار پارٹی کے جاری کردہ نئے سرٹیفکیٹ پیش کر سکیں یا پھر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کی اجازت دینا۔ 

الیکشن کمیشن نے بالآخر سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈرز کو آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کے دستخطوں سے جاری کئے جانے والے پارٹی ٹکٹ منسوخ تصور ہوں گے۔

الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں راجہ ظفرالحق اور دیگر نے ایک درخواست ضرور دائر کی جس میں موجودہ حالات کے تناظر میں سینیٹ انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی کی استدعا کی گئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ انتخابات کو کم از کم اتنے عرصے کے لئے ملتوی ضرورکر دیا جائے جس کے دوران مسلم لیگ (ن) اپنی پارٹی کے لئے کسی قائم مقام صدر کا انتخاب کرسکے اور اسی صدر کے دستخطوں سے جاری کئے جانے والے ٹکٹ پر پارٹی کے نمائندے سینیٹ انتخابات میں شرکت کریں۔ 

لیکن الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ نواز کی اس درخواست کو رد کردیا کیونکہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اسکروٹنی پہلے سے ہی مکمل ہو چکی تھی اور اس ضمن میں امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری کی جا چکی ہے اور چونکہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی پہلے ہی سے منظور کر لئے گئے تھے اس لئے اب انہیں آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا جب سینیٹ کے انتخابات کے لئے اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار انتخاب میں حصہ لیں گے۔

سینیٹ انتخابات میں ووٹ کیونکہ صوبائی اسمبلیوں سے لئے جاتے ہیں اس لئے کم ازکم یہ ضرور تصور کیا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جن صوبائی اسمبلیوں میں عددی اکثریت رکھتی ہے وہاں سے وہ اپنے آزاد امیدوار باآسانی منتخب کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ 

لیکن کیا موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) بلوچستان اسمبلی سے اپنی عددی اکثریت کے مطابق سیٹیں حاصل کر پائے گی، اس پر ایک بڑا سوالیہ نشان ضرور لگ گیا ہے۔ پہلے ہی بلوچستان میں جاری سیاسی کشمکش کے تناظر میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے امکانات کافی محدود تھے، اب موجودہ حالات میں تو صوبائی اسمبلی کے ممبران پر پارٹی ڈسپلن کی بھی قید نہیں ہو گی۔ 

اسی طرح پنجاب اسمبلی میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) کو اکثریت حاصل ہے لیکن کیا پارٹی ٹکٹ کی غیر موجودگی میں اسمبلی کے اراکین اپنی پارٹی کے کہنے پر آزاد امیدواروں کو ووٹ دیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ آزاد امیدواروں کے چکر میں صوبائی اسمبلی کے اراکین خود کو بھی آزاد تصور کرنا شروع کردیں اور اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈال دیں؟ 

سینیٹ کے انتخابات میں ویسے بھی مسلم لیگ (ن) کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ بلوچستان میں پچھلے دنوں ہونے والی سیاسی ہلچل کے بعد سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی نمائندگی کم ہو جائے گی۔ اب جب تمام صوبوں سے آزاد امیدوار منتخب ہوتے نظر آرہے ہیں تو یقیناََ پارٹی تذبذب کا شکار ہو رہی ہو گی۔

قانونی طور پر آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹرز کو سات دن میں یہ فیصلہ کرنا ہوتاہے کہ وہ حکومتی بنچ پر بیٹھیں گے یا پھر اپوزیشن میں شامل ہوں گے۔ موجودہ سیاسی حالات میں یہ سات دن بہت کٹھن ہوں گے۔ یقیناََکچھ نادیدہ قوتیں ایسی ہوں گی جن کی بھرپور کوشش ہو گی کہ ان آزاد امیدواروں کے ضمیر کو جھنجھوڑا جائے اور انہیں" وسیع تر قومی مفادـ" میں فیصلے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ 

عملی طور پر ایسا کرنا کافی مشکل کام ہوگا کیونکہ مسلم لیگ (ن)نے پارٹی ٹکٹ جاری کرتے ہوئے امیدواروں کی وفاداری کو ملحوظ خاطر رکھا تھا۔بہت سے ایسے افراد کو ٹکٹ جاری کئے گئے جن کی شاید پارٹی کے لئے خدمات تو کوئی خاطر خواہ نہ تھیں لیکن پارٹی لیڈرشپ سے ان کی وفاداری پر کوئی شک نہیں تھا۔ 

اب اسی وفاداری کے امتحان کا وقت آگیا ہے، دیکھنا ہوگا کہ کتنے امیدوار پارٹی قیادت سے اپنی وفاداری کو نبھاتے ہیں اور کتنے " وسیع تر قومی مفاد" میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرح سے سینیٹ کے انتخابات سے ہمیں آنے والے جنرل الیکشن کے بارے میں بھی کافی حد تک اندازہ ہو جائے گا۔ 

اگر تو سدا بہار طاقت رکھنے والے ادارے، سینیٹ انتخابات کے بعد ایک دوآزاد اراکین کو بھی اپنی طرف لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی سیاستی حکمت عملی پر کافی برا اثر پڑسکتا ہے۔ جنرل الیکشن سے صرف تین ماہ قبل ہم ایک بار پھر سے بے یقینی کی صورتحال میں داخل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں اس بے یقینی کی صورتحال میں مزید اضافہ ہوتانظر آرہا ہے۔

دوسری طرف شہباز شریف کو غالباََ مسلم لیگ ن کا نیا صدر منتخب کر لیا جائے گا، احد چیمہ کی گرفتاری غالباََ صدر بننے سے پہلے ان کے لئے ایک پیغام ہے۔ ان سب مشکلات کا مقابلہ کر کے مسلم لیگ ن کیسے متحد رہتی ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، مگر فی الحال جماعت کی مشکلات میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

سینئر صحافی افتخار احمد کا کالم 24 فروری کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔