27 فروری ، 2018
پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو مشکلات پیش آرہی ہیں جبکہ بچوں کا انتہائی نگہداشت وارڈ بھی موجود نہیں۔
خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے مرکزِ صحت لیڈی ریڈنگ اسپتال کو خود مختاری دیتے ہوئے صوبائی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسپتال جب مالی لحاظ سے اپنے پیروں پرکھڑا ہوگا تو یہ یہاں آنے والے غریبوں کے بہتر، آسان اور سستے علاج کا ایک بڑا مرکزبن جائے گا لیکن شاید یہ تجربہ بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوا کیونکہ اسپتال میں شدید بیمار بچوں کے لئے نہ ہی انتہائی نگہداشت وارڈ (آئی سی یو) کی سہولت دستیاب ہوسکی اور نہ ہی اسپتال کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ یہاں داخل لوگوں کو ادویات دے سکے۔
اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت سے پیسے مانگے ہیں لیکن ابھی نہیں ملے جس کی وجہ سے وہ مریضوں کو ادویات دینے کے قابل نہیں۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال میں انتظامیہ کے مطابق روزانہ پورے صوبے اورفاٹا سے 6 ہزارمریض اوپی ڈی میں چیک اپ کرانے آتے ہیں جن میں تقریباً ایک ہزار بچے بھی ہوتے ہیں۔ ان بچوں میں سے 80 یا 100 بچوں کو اسپتال میں داخل بھی کیا جاتا ہے تاہم ان میں سے وہ بچے جنہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھنا ضروری ہوتا ہے، ان کے لیے اسپتال میں کوئی بندوبست نہیں۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے الگ آئی سی یو تو نہیں ہاں جب ضرورت ہوتی ہے تو انہیں بڑوں ہی کے آئی سی یو میں رکھا جاتا ہے لیکن وہاں پربھی بیڈز کی کمی کی بدولت ان بچوں کو بروقت جگہ نہیں مل پاتی۔
اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسپتال میں آئی سی یو کے لیے درکار کنسلٹنٹ بھی دستیاب نہیں جس کے لیے انہوں نے تنخواہ اورمراعات کا پیکج بھی بہت بڑھادیا ہے لیکن اخبار میں اشتہاردینے کے باوجود بھی کنسلٹنٹ نہیں مل رہے۔
دوسری جانب اسپتال انتظامیہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اسپتال میں داخل مریضوں کو ادویات دینے کے لیے اسپتال کے پاس فنڈز کی شدید کمی ہے اور اس وقت مریضوں کو خود بازار سے ادویات لانی پڑتی ہیں۔
ان دونوں معاملات پرجب اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر مختیار زمان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا انہوں نے حکومت سے 5 ارب روپے مانگے ہیں جن میں سے انہیں ایک ارب روپے ملے ہیں۔
ان پیسوں میں سے 20 کروڑروپے کی ادویات خرید کرمریضوں کو دی گئی ہیں لیکن اب مزید فنڈ نہ ملنے کی وجہ سے یہ سلسلہ رک چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال انہوں نے اسپتال میں 34 کروڑ روپے کی ادویات تقسیم کی تھیں لیکن اس سال پیسے نہ ہونے کی بدولت وہ ایسا نہیں کرسکتے اوراگر حکومت نے رقم جاری نہ کی تو کام مزید بھی متاثرہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاورکے تینوں بڑے اسپتالوں میں بچوں کے لئے انتہائی نگہداشت کے وارڈز کی کمی ہے جس کی وجہ سے یہ بچے متاثرہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حیات آباد میں زیر تعمیر بچوں کا اسپتال جب مکمل ہوجائے گا تو ان بچوں کے مسائل کسی حد تک حل ہوجائیں گے۔
پشاور کے وسط میں واقع صوبے کا سب سے بڑا مرکزِ صحت لیڈی ریڈنگ اسپتال کو خود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شوکت خانم میموریل اسپتال کی طرز پر کامیاب کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے لیے انہوں نے شوکت خانم اسپتال کے نظام کو ترتیب دینے والے امریکا میں مقیم ڈاکٹر برکی کو لیڈی ریڈنگ اسپتال کا انچارج مقررکیا تھا۔
اس دوران اسپتال میں مختلف قسم کی اصلاحات بھی متعارف کی گئیں اور ڈاکٹروں و دیگرعملے کو اسپتال کی ملازمت اختیار کرنے کے لیے تنخواہیں اور مراعات بھی بڑھائی گئیں تاہم ابھی تک اسپتال کی سطح پر کوئی ایسی تبدیلی نظرنہیں آرہی جس کی بنیاد پر اسے پہلے سے بہت بہتر مرکز صحت کہا جاسکے۔
پورے صوبے سے مریضوں کی یہاں آمد نے بھی اس کی کارکردگی پر برا اثرڈالا ہے اور اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جب تک دیگر اضلاع میں اسپتال کامیاب نہیں ہوتے پشاور کے اسپتالوں کی کارکردگی بہتر نہیں ہوسکتی۔