05 مارچ ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل از خود نوٹس کی سماعت کے دوران مفرور پولیس افسر راؤ انوار کی گرفتاری سے متعلق آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت دیگر اداروں سے رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی میں پولیس مقابلے میں مارے جانے والے شہری نقیب اللہ قتل پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
اس موقع پر نمائندہ اسٹیٹ بینک نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار کے تمام بینک اکاونٹس منجمد کر دیے گئے ہیں جب کہ آئی بی نے مفرور ملزم سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کردی۔
آئی ایس آئی، ایم آئی اور ایف آئی اے کی جانب سے رپوٹس پیش نہ کی گئیں جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تینوں ایجنسیاں 11 بجے تک رپورٹس جمع کروائیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ کیا جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر ایف سی سے بھی راؤ انوار کی تلاش سے متعلق رپورٹ طلب کرلی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف سی کی رپورٹ نہ آئی تو ادارے کامتعلقہ افسر ذمہ دارہوگا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہمیں بھی نقیب اللہ کے قتل کادکھ اور تکلیف ہے، اس معاملے پرسیاست نہیں ہوگی، چاہتے ہیں راؤانوار کی حاضری یقینی بنائے جائے۔
دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ راؤ انوار کی ایئرپورٹ سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فوٹیج لے کرشناخت کریں بندے ہم بلالیں گے، اے ڈی خواجہ پر مکمل یقین ہے۔
اس موقع پر جوائنٹ سیکریٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے رپورٹ کے لیے وقت مانگا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو کتناوقت چاہیے؟ جوائنٹ سیکریٹری نے بتایا کہ ایک ہفتہ مل جائے توایم آئی اور آئی ایس آئی کی رپورٹ آجائے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے راؤ انوار کو پیش ہونے کا آخری موقع دیا تاہم وہ پیش نہ ہوئے جس پر ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔
چیف جسٹس نے حساس اداروں آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کو ہدایت کی تھی کہ راؤ انوار کی گرفتاری میں سہولت فراہم کریں اور اس حوالے سے رپورٹ پیش کی جائے۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔
راؤ انوار کو ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے معطل کردیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے جارہے ہیں البتہ اب تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔