20 مارچ ، 2018
کہانی، ڈائریکشن اور ٹریٹمنٹ میں متعدد جھول اور کمزور میوزک کے باوجود نئی فلم 'ریڈ' (Raid) خالصتاََ اجے دیوگن اور سورابھ شکلا اور سپورٹنگ کاسٹ کی اداکاری کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی۔
کم بجٹ کی حامل اس فلم میں نہ تو کوئی بڑی یا باہر کی جگہیں دکھائی گئیں اور نہ ہی عالیشان سیٹس۔ کاسٹیوم اور ملبوسات کا بھی خرچہ نہیں اور تو اور گانے بھی پرانے ریمکس کرکے گزارا کیا گیا ہے۔
فلم کی کہانی کو اگر ایک جملے میں بتانا ہو تو بس یہ کہنا کافی ہے کہ ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“۔ اب یہ گھر کا بھیدی کون ہوتا ہے؟ کیوں ہوتا ہے؟ وہ کیسے کام کرتا ہے اور وہ پکڑا جاتا ہے یا نہیں؟ یہ جاننے کے لیے فلم دیکھنی ضروری ہے۔
فلم 1981 میں مارے گئے ایک انکم ٹیکس چھاپے کی حقیقی کہانی پر بنائی گئی ہے جو دو سے تین دن میں ختم ہوتا ہے۔ اس چھاپے کے دوران انکم ٹیکس کی ٹیم نے 420 کروڑ مالیت کی کرنسی اور سونا برآمد کیا تھا۔ اُس وقت بھارت میں اندرا گاندھی وزیراعظم تھیں جن کی جھلک بھی فلم میں دکھائی گئی۔ اُس وقت کے بھارتی 420کروڑ روپے کتنے تھے اور ان کو ڈھونڈنے اور پھر گننے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے یہ ایک الگ” گھن چکر“ ہے۔
فرض کریں اگر ان 420کروڑ میں سے آدھے بھی کرنسی تھی اور اُس وقت سو سو کے نوٹوں کی شکل میں اس گھر میں چھپی تھی تو اس کو صرف گننے میں کئی گھنٹے لگنے چاہئیں کیونکہ ٹیم کا صرف ایک فرد اگر سو کی نوٹوں کی گڈی ایک منٹ میں گن سکتا ہے تو وہ ایک گھنٹے میں صرف 60 گڈیاں یعنی 6 لاکھ روپے گن سکتا ہے۔ یعنی 24گھنٹے میں ایک فرد بغیر وقفہ دیئے صرف ایک کروڑ 44 لاکھ روپے گن سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2 سو کروڑ کو گننے میں 48 نان اسٹاپ گھنٹے میں کم سے کم بھی 80 افراد کی ٹیم تو ہونی چاہیے تھی۔خیر اب چونکہ یہ فلم ہے تو اتنی مغزماری کی ضرورت نہیں۔
فلم میں سورابھ کی ماں کا کردار جہاں جہاں آتا ہے وہاں سب کے دل جیت جاتا ہے۔کھانے کی ٹیبل پر جلیبی کھانے کا سین ہو یا پھر اپنی بیماری پر بیٹوں کے لاپرواہی کی شکایت۔ بہو کے انداز پر شک ہو یا معصومیت میں اپنے ہی بیٹوں کے پیر پر کلہاڑی مارنا۔ یہ سب سین اور بے ساختہ مکالمے دیکھنے والوں کو مسکرانے اور یادوں میں ساتھ رکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
سورابھ شکلا نے بینڈٹ کوئن سے لے کر اب تک ستیہ، کلکتہ میل، برفی اور جولی ایل ایل بی سمیت کئی فلموں میں یادگار کردار کیے لیکن فلم 'ریڈ' میں ان کا ولن کا کردار اب تک ان کے کیرئیر کا سب سے بڑا کردار ہے۔ فلم میں کئی جگہ وہ اجے دیوگن جیسے اداکار پر بھی بھاری نظر آئے۔
فلم کی کہانی لکھنؤ شہر کی ہے جہاں ایک بہت ہی ایماندار انکم ٹیکس افسر کسی مخبر سے اطلاع ملنے کے بعد 420 کروڑ کا کالا دھن برآمد کرنے لکھنؤ کے ہی نہیں پوری یو پی کے طاقتور ترین کرپٹ آدمی کے گھر پر چھاپہ مارتا ہے۔اس چھاپے کے دوران اسے کیا دقت اور مشکلات آتی ہیں؟ پہلے ناکامی اور پھر ایک کے بعد ایک ملنے والی کامیابی کے بعد آخر میں اس کی زندگی کیسے خطرے میں پڑ جاتی ہے اور وہ کیسے اس خطرے سے نکل جاتا ہے، یہ جاننے کے لیے بھی آپ کو فلم دیکھنا ضروری ہے۔
اجے دیوگن کا یہ کردار سنگھم کے غصے والے پولیس والے کی طرح نہیں بلکہ ”دریشھم“ کے کردار کے قریب ہے جو کمزور ہو کر بھی اپنے دماغ سے سب مشکلوں پر قابو پالیتا ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر عامر اور ’’نو ون کلڈ جیسیکا‘‘ جیسی” پاور فل سینما“ بنانے والے راج کمار گپتا ہیں جن کی آخری فلم پانچ سال پہلے ریلیز ہونے والی فلاپ ”گھن چکر“ تھی۔
فلم 80 کی دہائی اور ٹیکس چھاپوں کی کہانی ہونے کے باوجود اکشے کمار کی اسپیشل چھبیس جیسی نہیں۔ فلم کی کہانی اور سسپنس دونوں اکشے کی فلم سے کافی کمزور ہیں۔ فلم دیکھنے کے بعد آپ کے ذہن اور دل میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں مثلاََ اجے دیوگن فلم کے شروع میں کلب میں کیوں جاتا ہے؟ فلم میں گانے زبردستی کیوں ٹھونسے گئے؟ قاعدے قانون پر چلنے والا شخص دل کی کیسے سن سکتا ہے؟ اتنی ٹینشن میں کوئی بیگم کھانا لے کر چھاپے کی جگہ کیسے پہنچ سکتی ہے؟
اسی وقت انسپکٹر اجے کو اندر بلاتا ہے ضروری کام سے لیکن اس وقت رومانس اور فلیشن بیک کا گانا شروع ہوجاتا ہے؟ بیوی کو کچھ نہ بتانے والا ایماندار سرکاری افسر قانون کے خلاف ولن کو باہر جانے کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ بیوی پر حملے کی خبر سن کر جب تاؤ جی، تاؤ دکھاتے ہیں اس وقت فلم دیکھنے والے سب فلم بینوں کو ہیرو سے ایک تھپڑ کی خواہش ہوتی ہے لیکن یہاں بھی کچھ نہیں ہوتا؟ گھر کے بھیدی کا پس منظر بھی موثر انداز میں پیش کیا گیا، نہ اسے سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا؟ گھر کے بھیدی کے سب سے قریبی شخص کے کردار کو بھی ”اسٹیبلیش“ نہیں کیا گیا۔
وزیراعظم کے حکم کے باوجود ایکشن اتنا تاخیر سے کیوں ہوتا ہے؟ بھارتی جماعت کانگریس کو مثبت انداز میں پیش کیا گیا یا منفی انداز میں یہ فیصلہ بھی فلم بین کے لیے مشکل ہی رہتا ہے؟ اپنی نہیں لیکن اپنوں کی جان بچانے کے لیے بھی ہیرو ولن کے خاندان پر بندوق کیوں نہیں اٹھاتا؟
دو گھنٹے اور کچھ منٹ کی فلم ہونے کے باوجود فلم آرام سے 15 منٹ اور کم ہوسکتی تھی، ساتھ میں گانے کم ہونے سے فلم کا دورانیہ 10 منٹ مزید کم ہوجاتا۔ فلم چونکہ موبائل اور سوشل میڈیا کے دور سے پہلے کی ہے تو اس میں سیٹی بجاتا پریشر ککر، ہاتھ کی اور دیوار کی گھڑی، گاڑیاں، کلینڈر، فائلز اور ٹیلیفون سیٹ کا فلیور اپنا رنگ دکھاتا ہے۔
اجے دیوگن اور سورابھ شکلا کے مکالمے تو زوردار ہیں لیکن اجے کے ساتھی للن کا سونے میں تلنے والا مکالمہ بھی بڑا بھاری تھا۔ فلم میں الیانا ہوتی یا نہ ہوتی یا کوئی اور اداکارہ ہوتی، فلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
یہ فلم اجے دیوگن کے فینز کے لیے بنی ہے، ان پرستاروں کے لیے جو اجے دیوگن کے ایکشن اور اسٹنٹ کے نہیں بلکہ ان کی اداکاری کے دیوانے ہیں۔فلم کا باکس آفس پر سو کروڑ کا چھکا لگانا ناممکن نظر آرہا ہے۔ فلم اگر 60 سے 70 کروڑ بھی کمالے تو سستی فلم ہونے اور سینما کے علاوہ ڈیجیٹل، اوور سیز، میوزکل اور ٹی وی رائٹس کی وجہ اپنے پروڈیوسرز کو مالا مال کرجائے گی۔
جاتے جاتے وہ جو فلم دیکھ چکے ہیں اور ابھی تک کروڑوں کی چار سو بیسی میں الجھے ہوئے ہیں، ان کے لیے یہ معلومات ہیں کہ اگر مان لیا جائے کہ تاؤ جی کے گھر سے ملنے والا صرف سونا 200 کروڑ مالیت کا تھا تو اُس سونے کی قیمت آج کے حساب سے 40 ارب روپے بنتی اور جو سوچتے ہیں کہ اتنا پیسہ گھروں میں کون چھپائے گا؟ ان کے لیے عرض ہے کہ 2 سال پہلے بلوچستان میں ایک چھاپے میں نیب نے کروڑوں روپے کی کرنسی ایک ہی گھر سے برآمد کی تھی۔
نوٹ :
1۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا، اُس فلم کے لیے کام کرنے والا فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔
2۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کے لیے بنتی ہے ۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی ، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔ فلم یا ٹریلر کے ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے ،جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔ غلطیاں ہم سے ،آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
رکیے، ہمارے لیے آپ کی رائے قیمتی ہے۔۔