27 مارچ ، 2018
نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد سندھ میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے بعد وہ واحد گراؤنڈ ہے جو بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی کرچکا ہے اور یہاں ورلڈکپ میچز سمیت بین الاقوامی ٹیسٹ منعقد ہو چکے ہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے یہ اسٹیڈیم انٹرنیشنل میچز کی میزبانی کے لئے ترستے ہوئے تباہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔
سندھ کے کپتان وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ دنوں حیدرآباد میں پولیس کے سہولت سینٹر کی افتتاحی تقریب کے دوران حیدرآباد کے عوام کو خوشخبری سناتے ہوئے اعلان کیا کہ آئندہ سال ہونے والے پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل ) کا ایک میچ حیدرآباد میں بھی کرایا جائے گا۔
بلاشبہ اگر حیدآباد کے تاریخی نیاز اسٹیڈیم میں پی ایس ایل کا میچ ہوتا ہے تو یہ ایک بڑی بات ہو گی کیوں کہ شہر کے واحد گراؤنڈ کی تباہ حال صورتحال کی وجہ سے یہاں کھیلوں کی سرگرمیاں ماند پڑچکی ہیں۔
نیاز اسٹیڈیم کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو سابق کمشنر حیدرآباد نیاز احمد کے نام سے منسوب یہ گراؤنڈ دراصل فٹبال کا میدان تھا جو کہ 1961 میں تعمیر کیا گیا لیکن ملک میں کرکٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے اسے کرکٹ گراؤنڈ کا درجہ دے کر یہاں فرسٹ کلاس اور انٹرنیشنل میچز منعقد کیے جانے لگے ۔
1982 میں پاکستان ٹیم نے یہاں کھیلے گئے پہلے ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں آسٹریلیا کو شکست دی تھی، اس گراؤنڈ پر پہلا ٹیسٹ میچ 16 مارچ 1973 کو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا جو بے نتیجہ ختم ہوا ۔
روایتی حریف بھارت نے بھی یہاں آ کر میچ کھیلا ، 14 جنوری 1983 کو کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے بھارت کے خلاف 581 رنز بنائے جس میں جاوید میاں داد اور مدثر نذر کی ریکارڈ 451 رنز کی پارٹنرشپ تھی اور اس میچ میں جاوید میاں داد نے ڈبل سنچری بناتے ہوئے 280 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔
سابق کرکٹر جلال الدین نے اسی میدان پر ون ڈے کرکٹ کی پہلی ہیٹ ٹرک کی، اس گراؤنڈ کو 1987 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے میچ کی میزبانی کا بھی اعزاز حاصل ہوا اور پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان نے 15 ہزار شائقین کی موجودگی میں کامیابی حاصل کی۔
وہ میدان جو کہ انتہائی اہم میچوں کا میزبان رہا ہو اس کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ سابق فوجی صدر جنرل مشرف کے دور میں جب یہ ضلعی انتظامیہ کی تحویل میں تھا تو اسے شادی ہال بنا دیا گیا جب کہ اعلیٰ شخصیات کی آمد کے موقع پر یہاں پر اکثر میچ رکوا کر اسے ہیلی پیڈ بھی بنایا جاتا رہا ۔
لیکن جیو نیوز کی ایک خبر پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔
اس وقت کے پی سی بی چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف اور ایم کیو ایم پاکستان کے ضلعی ناظم کنور نوید جمیل کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے اہم نکات میں اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن، اکیڈمی کا قیام اور فلڈ لائٹ کی تنصیب شامل تھی۔
اب کرکٹ بورڈ اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان اس معاہدے کو دس سال بیت گئے لیکن نیاز اسٹیڈیم کی قسمت تاحال نہیں بدلی ہے۔ نہ تو وہاں پویلین بنا،نہ لائٹس لگی اور نہ ہی کوئی اکیڈمی قائم کی گئی، اس وقت یہ تمام باتیں ایک خواب بن گئی ہیں۔
اس وقت نیاز اسٹیڈیم کی حالت اس قدر خراب ہے کہ وہاں مختلف انکلوژرز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ صوبائی حکومت اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی عدم توجہ ہے ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی کی کاوشوں کی بدولت پاکستان میں کرکٹ کی واپسی ممکن ہوسکی ہے۔ اب تک پی ایس ایل کے تین سیزن ہوچکے ہیں اور کراچی میں فائنل کے کامیاب انعقاد کے بعد اب وہ دن دور نہیں رہا جب پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ مکمل طور پر بحال ہو جائے گی اور حیدرآباد کا نیاز اسٹیڈیم بھی میچز کی میزبانی کرے گا۔
چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی اور وزیراعلیٰ سندھ دونوں نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ پی ایس ایل کے اگلے سیزن کے دوران حیدر آباد میں میچ منعقد کیا جائے گا جو کہ اندرون سندھ کے عوام کے لیے کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے۔
دو ماہ بعد ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے اس لیے وزیراعلیٰ سندھ کو چاہیے کہ وہ اپنے اعلان کو حقیقت کا روپ دیں اور فوری طورپر بجٹ میں نیاز اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کے لیے رقم مختص کریں ۔
اگرچہ، گراؤنڈ کی اپ گریڈیشن کی ذمہ داری پاکستان کرکٹ بورڈ کی ہے لیکن اس کی موجودہ حالت کو بہتر کرنے کے لیے کرکٹ بورڈ اور صوبائی حکومت کو مل کر کام کرنا ہو گا ۔
نیاز اسٹیڈیم کی بحالی سے نہ صرف ملک میں کرکٹ کو فروغ ملے گا بلکہ سندھ کے غریب عوام کو ایک تفریح کا ذریعہ میسر آئے گا اور یہاں کے مقامی کرکٹرز ہمیں بین الاقوامی کرکٹ میں ایکشن میں بھی نظر آئیں گے۔