Time 28 مارچ ، 2018
پاکستان

لندن فلیٹس: نواز شریف کے بینیفشل اونرہونے کی دستاویزات پیش نہیں کیں، واجد ضیا

فوٹو: فائل

اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کے بیان پر نواز شریف کے وکیل نے جرح کی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر  نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح شروع کرتے ہوئے سوال کیا کہ 'کیا آپ نے ایون فیلڈ پراپرٹیز سے متعلق نواز شریف کی ملکیت کی کوئی دستاویزات پیش کیں'۔

جس پر انہوں نے کہا کہ 'نہیں ایسی دستاویزات ہمارے پاس نہیں اور نہ پیش کیں'، ایون فیلڈ پراپرٹیز، نیلسن اور نیسکول کی ملکیت تھیں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا 'نواز شریف ایون فیلڈ پراپرٹیز کے بینیفیشل اونر ہیں، ایسی کوئی دستاویز پیش کی جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ ایسی دستاویزات پیش نہیں کیں جن سے ثابت ہو نواز شریف بینی فیشل اونر ہیں۔

خواجہ حارث نے سوال کیا 'کوئی ایسی دستاویزات کہ ماضی میں کبھی نواز شریف ان کمپنیوں کے بینیفیشل اونر تھے' جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ نہیں ایسی کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔

خواجہ حارث نے ایک اور سوال کیا کہ 'ایف آئی اے اور بی وی آئی نے کوئی دستاویزات دی تھیں کہ نواز شریف ان کمپنیوں کے بینی فیشل اونر تھے' جس کا جواب بھی انہوں نے یہی دیا کہ ایسی کوئی دستاویزات نہیں ملیں۔

نواز شریف کے وکیل نے سوال کیا 'نیلسن اور نیسکول کے ساتھ کیا غیر سرکاری فرم موزیک فونسیکا ڈیل کر رہی تھی' جس پر واجد ضیا نے کہا کہ یہ درست ہے کہ یہ غیر سرکاری مگر رجسٹرڈ فرم ہے۔

موزیک فونسیکا سے براہ راست کوئی خط و کتابت نہیں کی، جے آئی ٹی سربراہ

خواجہ حارث نے سوال کیا 'موزیک فونسیکا نے کوئی ایسی معلومات دیں کہ نواز شریف ان کمپنیوں کے بینی فیشل اونر ہیں جس کا جواب واجد ضیا نے دیا کہ 'نہیں کوئی ایسی معلومات نہیں دی گئیں'۔

واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے موزیک فونسیکا سے براہ راست کوئی خط و کتابت نہیں کی، موزیک فونسیکا پرائیویٹ لا فرم تھی اور ہم نے براہ راست بی وی آئی اٹارنی جنرل آفس سے خط و کتابت کی۔

یاد رہے کہ موزیک فونسیکا وہی لاء فرم ہے جس نے جزیرہ پاناما میں مختلف ممالک کی اہم شخصیات کی آف شور کمپنیوں سے متعلق انکشافات کیے تھے۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ہم نے بی وی آئی کی ایف آئی اے کو خط لکھا جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ والیم چار کا صفحہ 53 اور 54 دیکھیں، کیا یہ خط بی وی آئی کی ایف آئی اے نے نہیں لکھا۔

جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ جوابی خط مجھے براہ راست نہیں ملا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ جتنا مرضی گھمائیں میرا سوال وہی ہے۔

واجد ضیاء نے کہا کہ خط ڈائریکٹر فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کے دستخط کے ساتھ تھا جو جے آئی ٹی کے نام لکھا گیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ خط کے مندرجات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ خط اٹارنی جنرل آفس سے بھیجا گیا۔

واجد ضیاء نے کہا یہ درست ہے کہ خط کے مندرجات سے پتا نہیں لگ رہا کہ یہ اٹارنی جنرل آفس سے بھیجا گیا۔

جزوی طور پر درست ہے کہ بینیفیشل اونر کا نتیجہ 2012 اور2017 کے 2 خطوط کی بنیاد پر نکلا، واجد ضیاء

جے آئی ٹی سربراہ نے مزید کہا کہ جزوی طور پر درست ہے کہ بینیفیشل اونر کا نتیجہ 2012 اور 2017 کے  2 خطوط  کی بنیاد پر نکلا جس پر نواز شریف کے وکیل نے فاضل جج سے درخواست کی کہ یہ رضا کارانہ جواب دے رہے ہیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنالیں۔ 

واجد ضیاء نے کہا کہ ان دو خطوط اور وہاں کے قوانین کے مطابق بینی فیشل اونر کا نتیجہ نکالا تاہم رجسٹرڈ آف شئیر ہولڈرز کی اصل دستاویزات کبھی نہیں دیکھیں۔

سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ نواز شریف گلف اسٹیل کے مالک یا شئیر ہولڈر ہوں تاہم جے آئی ٹی کے سامنے صرف طارق شفیع نے کہا کہ گلف اسٹیل کا شئیر ہولڈر شریف خاندان ہے اور کسی گواہ نے نہیں کہا کہ نواز شریف گلف اسٹیل کے مالک یا شئیر ہولڈر ہیں۔

سماعت کے دوران احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ آپ کچھ مختصر جرح نہیں کرلیتے؟جتنا ہوسکتا ہے مختصر کریں، ابھی تو مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے بھی جرح کرنی ہے۔

جج محمد بشیر نے کہا کہ عدالت پہلے ایون فیلڈ ریفرنس کو مکمل کرے گی پھر دیگر ریفرنس سنے گی۔

جج کے ریمارکس پر خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا نے جورضاکارانہ طور پر باتیں کیں ابھی ان پربھی جرح کرنی ہے، ابھی میں نے واجد ضیاء کا بیان نہیں پڑھا، وہ سوالات کیےجوذہن میں تھے، پاناما جےآئی ٹی کے سربراہ کا بیان پڑھنے کے بعد مزید جرح کروں گا، امید ہے جمعہ تک جرح مکمل ہوجائے گی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جو قطری خطوط آئے ان کے 3 پہلو ہیں، قطری خط کاپہلا پہلو یہ ہے کہ 1980میں سرمایہ کاری ہوئی، دوسرا پہلو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ تقسیم ہوا، تیسرا پہلو 2006 میں ایون فیلڈ پراپرٹیز کی سیٹلمنٹ سےمتعلق ہے۔

خواجہ حارث نے واجد ضیا سے سوال کیا کہ قطری خط میں کسی بھی پہلو سے نواز شریف کا نام موجود ہے؟ اس پر واجد ضیا نے کہا کہ نہیں، تینوں پہلوؤں میں کہیں بھی نواز شریف کا نام موجود نہیں،

خواجہ حارث نے پوچھا کہ دوران تفتیش کسی نے نواز شریف کا نام کسی ٹرانزیکشن میں ہونےکی گواہی دی؟ کیا کسی نے نوازشریف کا نام ایون فیلڈ پراپرٹیز،گلف اسٹیل ملز میں لیا؟

واجد ضیا نے کہا کہ نہیں دوران تفتیش کسی گواہ نے بھی نواز شریف کا نام نہیں لیا۔

بعد ازاں عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل دن 12 بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران واجد ضیاء نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا اور بیان مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کی تھی۔

گزشتہ روز سماعت پر نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف قطری شہزادے کے خط سمیت تین اضافی دستاویزات کو بطور شواہد جمع کرانے کی درخواست کی جس پر عدالت نے اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا تھا۔

اس سے قبل احتساب عدالت نے 22 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف اور مریم نواز کی ایک ہفتے کے لئے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔

دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نیب کی جانب سے ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی احتساب عدالت میں دائر کیے جاچکے ہیں۔

مزید خبریں :