03 اپریل ، 2018
کراچی میں 9 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر شہر سمیت ملک بھر میں جشن کا سا سماں ہے اور شائقینِ کرکٹ کا جوش و خروش بھی عروج پر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم بھی نیشنل اسٹیڈیم تک کھنچے چلے گئے، جہاں میچ دیکھ کر جوش چاہے اپنی انتہا کو نا پہنچا ہو لیکن اسٹیڈیم میں تماشائیوں کی گرم جوشی دیکھ کر مزہ بہت آیا۔
پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ کی طرح دوسرے میچ میں بھی مہمان ٹیم کی مایوس کن پرفارمنس اور قومی ٹیم کی یکطرفہ جیت کے بعد شائقین کرکٹ میں مایوسی دیکھی گئی، یہی نہیں ویسٹ انڈین ٹیم کے کھلاڑیوں کو 'ریلو کٹوؤں' سے بھی تعبیر کیا گیا اور متعدد تماشائی اس حوالے سے جملے بھی کستے نظر آئے۔
'ریلو کٹا' پنجابی زبان کا ایک عامیانہ لفظ ہے، جسے خاص کر اُس وقت خبروں میں جگہ ملی، جب پی ایس ایل 2 کے فائنل میچ میں شامل غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 'پھٹیچر' اور 'ریلو کٹا' کا لفظ استعمال کیا تھا۔
ایسا نہیں کہ مہمان ویسٹ انڈین ٹیم میں شامل تمام کھلاڑی نئے ہیں یا انہیں اسٹار کھلاڑیوں کی عدم دستیابی کے باعث جلد بازی میں ٹیم میں شامل کرکے پاکستان بھیج دیا گیا ہے، مہمان ٹیم کو آئی سی سی رینکنگ کی نمبرون پاکستانی ٹیم کے ہم پلہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن اس کے باوجود اس کے پاس ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو نہ صرف مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ میچ کو دلچسپ بھی بناسکتے ہیں۔
ابتدائی دو میچز میں مہمان کھلاڑیوں کی مایوس کن کارکردگی کے پس پردہ کئی عوامل کار فرما ہیں جنہیں سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ہم کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ ایک ٹیم تقریباً 24 گھنٹوں کا فضائی سفر طے کرکے پاکستان پہنچے اور فوراً ہی اس کے کھلاڑیوں کو ایک ایسی ٹیم کے خلاف میدان میں اتار دیا جائے جو رینکنگ میں نمبر ون ہو۔ تھکاوٹ کے شکار کھلاڑی جب بغیر پریکٹس کے میدان میں اتریں گے تو ٹیم کو 60 رنز پر ہی آؤٹ ہونا تھا، میچ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تمام کھلاڑی تھکے تھکے دکھائی دیئے۔
جلد بازی میں کرائے جانے والے اس ٹورنامنٹ میں شکست کا پورا ذمہ مہمان کھلاڑیوں پر ڈالنا مناسب نہیں ہوگا، اس میں کچھ خامیاں ہماری بھی ہیں، کیوں کہ عین وقت پر میچز کے شیڈول میں تبدیلی، جلد بازی میں کھلاڑیوں کو پاکستان لانا اور پھر بغیر کسی وقفے کے میچ کرانا بھی یک طرفہ کھیل کے نتیجے میں ویسٹ انڈیز کی یکے بعد دیگرے شکست کی بڑی وجوہات ہیں۔
اس سے قبل شیڈول تھا کہ دونوں ٹیمیں یکم اور دو اپریل کو مدمقابل ہوں گی اور تیسرا میچ 4 اپریل کو کھیلا جائے گا، لیکن یہ شیڈول بعدازاں اس وجہ سے تبدیل کردیا گیا کہ انتظامیہ کو اس بات کی فکر لاحق ہوگئی کہ 4 اپریل کو تو بانی پیپلز پارٹی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی ہے جس کی وجہ سے تینوں میچز بالترتیب یکم، 2 اور 3 اپریل کو رکھ دیئے گئے۔
یہی نہیں مہمان ٹیم دو مختلف فلائٹس کے ذریعے کراچی پہنچی، کھلاڑیوں کا پہلا دستہ ہفتے کی رات کو کراچی پہنچا اور دوسرا دستہ میچ سے چند گھنٹوں قبل اتوار کو صبح سویرے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد سیدھا ہوٹل گیا، جہاں محض کچھ گھنٹے آرام کرنے کے بعد یہ تھکے ہارے کھلاڑی میدان میں عملی مشق کے لیے اتر گئے۔
جس انداز میں مہمان ٹیم پاکستان پہنچی، اُسی انداز میں گراؤنڈ میں ان کی کارکردگی بھی نظر آئی۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بیٹنگ کے دوران ویسٹ انڈین کھلاڑی یکے بعد دیگرے آؤٹ ہوتے گئے اور کوئی بلے باز بڑی اننگز نہ کھیل سکا۔ شکست کے بعد یہ کھلاڑی ہوٹل پہنچے، کچھ آرام کیا اور دوسرے روز بھی یہی سب کچھ دیکھنے کو ملا۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ویسٹ انڈیز ٹیم میں ناتجربہ کار کھلاڑی شامل ہیں، جنہیں عرف عام میں 'ریلو کٹے' کہا جاتا ہے؟ تو ایسا نہیں ہے۔
مہمان ٹیم کے پاس فلیچر جیسے اوپننگ بلے باز ہیں جو 37 میچوں میں 650 رنز بناچکے ہیں اور مارلن سیموئلز کو کوئی کس طرح بھول سکتا ہے، جو اب تک 62 ٹی ٹوئنٹی میچز میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کرکے 1499 رنز بناچکے ہیں۔
نوجوان بلے باز چیڈوک والٹن بھی ویسٹ انڈین ٹیم کا اثاثہ ہیں، جنہوں نے محض 17 میچوں میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کی لیکن وہ نہ صرف جارح مزاج ہیں بلکہ برق رفتاری سے رنز بنانا بھی جانتے ہیں۔
پاکستان کے خلاف بولنگ کے شعبے میں سیموئل بدری ویسٹ انڈین ٹیم کے اہم ہتھیار ہیں جو 47 انٹرنیشنل میچوں میں 54 وکٹیں لے چکے ہیں۔ کپتان جیسن محمد، کیمو پال، ریاد ایمرٹ بھی ویسٹ انڈین ٹیم کے اہم کھلاڑی ہیں۔
اس لیے ویسٹ انڈین ٹیم کی ناقص پرفارمنس پر صرف اور صرف کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں، کیوں کہ کھلاڑیوں کی پرفارمنس کا تعلق ان کے ذہنی اور جسمانی سکون سے بھی ہوتا ہے، اگر کھلاڑی مکمل طور پر کھیل کے لیے تیار ہوں، انہیں بھرپور پریکٹس کا موقع اور آرام ملے تو وہ بہترین کارکردگی پیش کرسکتے ہیں۔
انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک آرام اور سکون بھی ہے، خصوصاً کرکٹ جیسے کھیل میں تو اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ سیریز میں، 24 گھنٹوں کا سفر کرکے پہنچنے والی ٹیم کی، بغیر پریکٹس مسلسل 2 دن کھیلنے کے بعد شکست پر انہیں 'ریلو کٹوؤں' سے تشبیہہ دینا واقعی ناانصافی ہے۔