10 اپریل ، 2018
بالی وڈ کی ایکشن تھرلر فلم ’باغی 2‘ سو کروڑ کا چھکا لگانے کے بعد اب 200 کروڑ کی منزل حاصل کرنے کی طرف گامزن ہے۔
دیکھتے ہیں یہ فلم ٹائیگر کو پہلی 100 کروڑ فلم کے بعد ڈبل سنچری کا اعزاز بھی دلائے گی یا نہیں۔ فلم 2 سال پہلے ریلیز ہونے والی فلم 'باغی' کا سیکوئل ہے، دونوں فلموں میں ہیرو کا کردار ٹائیگر شیروف نے ادا کیا ہے، ہاں لیکن پہلی فلم کی ہیروئن شردھا کپور تھیں اور اس فلم میں ڈشا پٹانی ہیں۔
اِس باغی میں پچھلی باغی سے بھی زیادہ ایکشن ہے۔ اگرچہ فلم کی کہانی اتنی اچھی بُنی ہوئی نہیں لیکن چونکہ فلم میں ’ٹوئسٹ اینڈ ٹرن‘ بہت زیادہ ہیں جن میں سے زیادہ تر کی ”لوجک“ یعنی کوئی منطق نہیں، پھر بھی کیونکہ کہانی کے ان حصوں کو بتانے سے فلم دیکھنے والوں کا مزا خراب ہوجائے گا اس لیے ان سے بچ بچا کر ریویو لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے بھی فلم کو کہانی کی وجہ سے نہیں بلکہ ٹائیگر کے ایکشن، اسٹنٹس، غصے اور ڈانس کی وجہ سے خوب دیکھا جارہا ہے، فلم میں ٹائیگر شیروف کا کردار ایک سخت جان کمانڈو کا ہے جو اپنی سابقہ گرل فرینڈ کی بیٹی کے لیے بڑے بڑے دشمنوں سے لڑ جاتا ہے۔
ٹائیگر کی ڈشا سے دوستی ختم کیوں ہوتی ہے؟ڈشا شادی کے بعد اپنے پرانے دوست ٹائیگر سے ہی مدد کیوں مانگتی ہے؟ڈشا کی بیٹی کو اغواء کیا گیا یا وہ لاپتہ ہوئی تھی؟ ڈشا کی بیٹی ہے بھی یا نہیں؟ ٹائیگر اپنے اس مشن میں کیوں اور کتنا الجھ جاتا ہے؟ ان سب سوالات کے جوابات جاننے کے لیے آپ کو فلم دیکھنی پڑے گی۔
'باغی 2' پوری بالی وڈ اسٹائل کی کمرشل مصالحہ فلم ہے۔ فلم ڈشا پٹانی پر ہونے والے حملے سے شروع ہوتی ہے، جس کے بعد کہانی فلیش بیک میں جاتی ہے جہاں ہیرو ہیروئن کی دوستی اور محبت کی کہانی شروع ہوتے ہی ہمیشہ کی طرح ان کے بیچ میں ایک ’دیوار‘ آجاتی ہے۔
ڈشا کسی اور سے شادی کے سالوں بعد اپنی اغواء ہونے ولی بیٹی کی تلاش کے لیے اپنے پرانے اور سچے دوست ٹائیگر کو یاد کرتی ہے جو اَب ایک آرمی افسر ہے، ٹائیگر ڈشا کی مدد کرتا ہے لیکن اسی دوران تھانے، اسکول، پڑوسیوں اور یہاں تک کہ ڈشا کے شوہر سے بھی اس پر یہ بھید کھلتا ہے کہ ڈشا کی تو کوئی بیٹی ہے ہی نہیں۔
اب ایک طرف ڈشا کا دعویٰ اور پریشانی، دوسری طرف ایک کے بعد دوسری گواہی جس سے ٹائیگر کی الجھن بڑھ جاتی ہے۔ اسی الجھن کو سلجھاتے سلجھاتے کئی بڑے حادثے اور قتل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور آخر میں بیٹی کے بارے میں جب سارا بھید کھلتا ہے تو ایک بڑی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔
فلم میں کئی گتھیاں ہیں جو جب سلجھتی ہیں تو فلم دیکھنے والے کی الجھن بڑھ جاتی ہے لیکن اس الجھن پر فلم کا ایکشن اور اسٹنٹ فوراً حاوی ہوجاتا ہے اور فلم دیکھنے والے ذہن پر زور دینے کے بجائے ’لطف اندوز‘ ہونے لگ جاتے ہیں اور یہی اس فلم کی کامیابی کا منترا ہے۔
فلم کے ’دی اینڈ‘ سے پہلے کا فائٹنگ سین بہت طویل ہے، ٹائیگر ولن کے اتنے ساتھیوں کو مارتا ہے کہ آپ گِن بھی نہیں سکتے۔ فلم میں دیپک دوبریال نے بھی زبردست ایکٹنگ کی ہے لیکن یہ کریکٹر ’شان‘ فلم کے ”عبدل“ یعنی مظہر خان سے متاثر ہو کر لکھا اور ڈیزائن کیا گیا ہے۔
فلم میں ایک سرپرائز یہ تھا کہ ایکشن کافی لیٹ شروع ہوا لیکن پہلا ہی ایکشن سین جب شروع ہوتا ہے تو فلم دیکھنے والے اپنے دانتوں کو ہاتھ لگالیتے ہیں۔
4 سال پہلے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے ٹائیگر کی یہ پانچویں فلم ہے اور اس فلم کی کہانی کو بھی تیلگو فلم سے لیا گیا ہے۔ ’ہیرو پنتی‘ اور ’باغی‘ ٹائیگر کی کامیاب اور ’اے فلائنگ جٹ‘ اور ’منا مائیکل‘ فلاپ فلمیں ہیں۔
فلم پروڈیوسر ساجد نڈیا والا کے ساتھ ’ہیرو پنتی‘ اور ’باغی‘ کے بعد ٹائیگر کی یہ مسلسل تیسری اور اب تک کی سب سے کامیاب فلم ہے۔ ڈشا پٹنی اب تک اپنے ہیروز کے لیے خوش قسمت رہی ہیں کیونکہ ’باغی 2‘ سے پہلے ان کی پہلی فلم”دھونی“ جس میں سشانت سنگھ ہیرو تھے، نے بھی 100 کروڑ کا چھکا لگایا تھا۔
اُس فلم سے پہلے بھی سشانت سنگھ کی جاسوسی فلم بری طرح فلاپ ہوئی تھی، ’باغی 2‘ صرف ٹائیگر کے لیے ہی اچھی خبر نہیں لائی بلکہ اس فلم سے منوج واجپائی، پرتیک ببر اور رندیپ ہودا کو بھی بڑا فائدہ ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ خوشی مشہور کوریوگرافر احمد خان کو ہوئی ہے جو اس فلم سے بطور ڈائریکٹر کامیاب ہو ہی گئے۔
کئی سپر ہٹ گانوں اور ڈانس ڈائریکٹ کرنے والے احمد خان 14 سال پہلے ’لکیر‘ اور اس کے 3 سال بعد ’فول اینڈ فائنل‘ جیسی بڑے ہیروز کی میگا بجٹ کی ناکام فلمیں ڈائریکٹ کرچکے ہیں۔ احمد خان کی اس فلم میں بھی کہانی پر گرفت اچھی نہیں لیکن ٹائیگر کے ایکشن نے انھیں بچالیا اور کیریئر کی پہلی ہٹ دلوادی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’باغی 3‘ کا پہلے ہی اعلان کیا جاچکا ہے، جس کے ہدایتکار احمد خان ہی ہوں گے، باغی کا ایک اور منفی پہلو اس کے ریمکس گانے ہیں۔ ’باغی 2‘ میں 30 سال پہلے فلم ’تیزاب‘ میں مادھوری پر پکچرائز ہونے والا کلاسک ’ایک دو تین‘ جیکولین پر فلمایا گیا ہے۔ گانا اور ڈانس تو آج بھی ہٹ ہوگیا لیکن یہ اپنے اوریجنل کے جادو کے سامنے پھیکا ہے۔
باغی کے ایکشن کے کامیاب ہونے سے ٹائیگر کی ”ریمبو“ بننے کی کوشش کو دھچکا لگے گا کیونکہ دونوں فلموں کی کہانی تو الگ ہوگی لیکن ایک ہی طرح کا ایکشن ہونے کا چانس ہے۔ ’باغی 2‘ میں بھی سلویسٹر اسٹالون کی ”ریمبو“ اور آرنلڈ کی ”کمانڈو“ کی طرح کئی سین ہیں۔
باغی ٹو میں رندیپ ہودا اور منوج واجپائی نے پولیس اہلکاروں کا رول کیا ہے، دونوں نے خوب ایکٹنگ کی ہے لیکن رندیپ ہودا نے سارا شو چرالیا۔ ایسا پولیس والا اس سے پہلے شاید ہی کسی فلم میں دکھایا گیا ہو۔
حقیقت سے کہیں دور ہونے کے باوجود آپ فلم میں جس کردار سے سب سے زیادہ جُڑتے ہیں وہ غالباََ یہی کردار ہے، یہی نہیں فلم جہاں جہاں” لوجک“ سے دور ہوتی ہے سینما میں اتنی ہی تالیاں اور سیٹیاں زیادہ بجتی ہیں اور یقینا اسی کا نام ”فلم“ اور”سنیما“ہے۔
نوٹ :
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔
2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے ۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آپ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے، جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
5۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں، بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔
6۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دو گھنٹے اور 31 منٹ بھی سما نہیں سکتے۔