منی بجٹ کی ابتداء: حکومت کا پیٹرول بم تیار

حکومت نے فنانس بل میں پیٹرولیم لیوی میں 200 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے—۔فائل فوٹو

3 دن قبل حکومت نے اپوزیشن کے احتجاج اور تنقید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مالی سال 19-2018 کا بجٹ پیش کردیا اور صرف یہی نہیں، بجٹ اجلاس سے محض چند گھنٹوں قبل مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ کا عہدہ دے کر ایک نیا پنڈورہ بکس بھی کھول دیا۔

پہلے پہل تو اپوزیشن اس بات پر معترض تھی کہ حکومت 4 ماہ کے بجائے پورے سال کا بجٹ کیوں پیش کر رہی ہے اور مفتاح اسماعیل کے وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہوجانے کے بعد اسے اعتراض کے لیے ایک نئی بات مل گئی کہ بھئی جس شخص کے پاس نہ تو قومی اسمبلی اور نہ ہی سینیٹ کی نشست ہو، وہ بھلا کیونکر وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھال کر بجٹ پیش کرسکتا ہے۔

اپوزیشن کے کچھ سیاستدانوں نے تو وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل کو بھی شے دلانے کی کوشش کی کہ بھئی آپ کا حق مارا گیا ہے، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور مفتاح اسماعیل نے بحیثیت وزیر خزانہ مالی سال 19-2018 کے لیے 5 ہزار 932 ارب 50کروڑ روپے حجم کا بجٹ پیش ہی کردیا۔

اب نیا مالی شروع ہونے میں تو ابھی کافی وقت ہے، لیکن حکومت نے منی بجٹ کی ابتداء کر ڈالی ہے، جس کی شروعات ہوں گی پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں 200 فیصد اضافے سے، جو 10 روپے سے بڑھا کر 30 روپے فی لیٹر کیے جانے کا امکان ہے۔

کہتے ہیں نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اب دانائی کا اسٹاک بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔

تازہ ترین مثال نئے نئے وزیر خزانہ بننے والے مفتاح اسماعیل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں دنیا بھر کے کئی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں بہت کم ہیں، شاید اسی لیے مہنگائی کے مارے عوام کے رہے سہے کس بل نکالنے کے لیے فنانس بل میں پیٹرولیم لیوی میں دس نہ بیس، پورے 200 فیصد اضافے کی باتیں کی جارہی ہیں اور صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ایل پی جی پر بھی لیوی میں 328 فیصد کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔

جبکہ ماہرین کہتے ہیں کہ لیوی میں اضافے سے مہنگائی کا طوفان آنے کا خدشہ ہے۔

حکومت نے ہمیشہ ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں جو سراسر 'سیاسی خودکشی' کے زمرے میں آتے ہیں، خاص طور پر نئے انتخابات سے کچھ ہی دن قبل مہنگائی کی چکی میں پسے عوام پر اس قسم کے حملے حکومتی نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟

حکومت ویسے ہی 'نا اہلیوں' کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، اس پر مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنانے اور بقول اپوزیشن 4 ماہ کے بجائے پورے سال کا بجٹ پیش کرنے پر بھی اسے تنقید کا سامنا ہے۔

دوسری جانب فنانس بل میں پیٹرولیم لیوی ایکٹ میں ترمیم اور پیٹرولیم مصنوعات پر زیادہ سے زیادہ پیٹرولیم لیوی 200 فیصد بڑھانےکی تجویز سے عوام کی مشکلات کے ساتھ حکومت پر تنقید میں اضافہ ہی ہوگا۔

کون نہیں جانتا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر طرح طرح کے ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا براہ راست اثر غریب عوام پر ہی پڑتا ہے، لیکن حکمران صرف تصویر کا ایک ہی رخ دکھاتے ہیں کہ ان کے اس طرح کے کرتوتوں کا اثر عام آدمی پر نہیں پڑے گا۔

اب کوئی ٹھنڈے کمروں اور لگژری گاڑیوں میں سرکاری خرچ پر ملکوں ملکوں مٹر گشت کرنے والے کو کوئی کیسے سمجھائے کہ عام آدمی سے تو تمھارا دور کا بھی واسطہ ہی نہیں ہے، تو تم اس کے درد کا مداوا کیسے کرو گے؟ 

تو صاحبو! منی بجٹوں کا نزول ہونا شروع ہوچکا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔