Time 05 مئی ، 2018
بلاگ

فصلی بٹیروں کا موسم

انتخابات 2018 کا وقت قریب آتے ہی سیاسی رہنما اپنی جماعتیں چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں—فائل فوٹو

پاکستان کی سیاسی روایات کے عین مطابق جیسے جیسے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے ویسے ویسے ہی کئی سیاستدان اپنی جماعتوں کو چھوڑ کر نئی سیاسی صف بندیاں کر رہے ہیں۔ اس طرح کے سیاست دان کسی بھی طرح کا سیاسی نظریہ نہیں رکھتے بلکہ صرف اور صرف انتخابات میں کامیاب ہونا اور حکومتی جماعت کا حصہ بن کر بھرپور فائدے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

جب سابق وزیراعظم نواز شریف سے اس بارے میں پو چھا گیا کہ آپ ایسے افراد کو اپنی جماعت میں شامل کرتے ہی کیوں ہیں تو اس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ خود ہی ہماری جماعت میں آ جاتے ہیں، یعنی الیکٹیبلز یا اپنے حلقوں میں اثر روسوخ رکھنے والے سیاستدان خود ہی وقت کی نبض کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اس وقت کون سی جماعت میں جانے سے ان کو اقتدار ملے گا۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں بھی ایسے مفاد پرست سیاستدانوں کا ماضی دیکھے بغیر ان کو اپنی جماعت میں شامل کر لیتی ہیں۔ یہاں بنیادی سوال یہی ہے کہ ہماری سیاست میں یہ رویہ کیوں پایا جاتا ہے؟

دراصل کسی بھی ملک کے سیاسی مزاج کی تعمیر میں اُس ملک کے تہذیبی، ثقافتی، مذہبی اور معاشی ڈھانچے کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ ملک کا سیاسی نظام ایک طرح سے اس کے معاشی نظام اور سماجی رویے کا عکاس ہوتا ہے۔ پاکستان میں قومی اسمبلی کی کل272 منتخب نشستوں میں سے 185کے لگ بھگ نشستیں ایسی ہیں، جو دیہی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ ان نشستوں میں اب بھی واضح طور پر مخصوص برادریوں، ذاتوں، زمینداروں، جا گیر داروں اور پیروں کا بھر پور سیاسی اثر و رسوخ موجود ہے۔

1947 میں آزادی کے وقت موجودہ پاکستان کا 59 فیصد علاقہ براہ راست جاگیرداری نظام کے زیر اثر تھا۔ چونکہ ان علاقوں میں مسلم لیگ کے بہت سے اراکین کا تعلق ماضی میں یونینسٹ پارٹی سے رہا تھا، جو سراسر جاگیر داروں کے مفادات کی نگہبان جماعت تھی، اس لیے قیامِ پاکستان کے بعد اس نظام کو ختم کرنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی۔

افسوس اب بھی کئی سیاستدان، سول سوسائٹی، میڈیا اور دانشوروں کی اکثریت اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہی کہ جب تک یہ بوسیدہ سیاسی اور معاشی ڈھانچہ برقرار رہے گا تب تک پاکستان میں جمہوریت بھی خطرے میں رہے گی۔

2011 میں منظر عام پر آنے والی کتاب 'پاکستان اے ہارڈ کنٹری' کے مصنف ایناتھول لیون نے بنیادی طور پر یہ موقف پیش کیا ہے کہ پاکستان میں اب بھی ریاست یا قوم کے ساتھ وفاداری کا رشتہ استوار ہونے کی بجائے، برادری اور ذات کی بنیاد پر استوار ہونے والے رشتے زیادہ مضبوط ہیں اور یہی امر پاکستان میں کسی بھی قسم کی مثبت تبدیلی لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اب سیاسی ہوا کا رخ دیکھ کر بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں کے ایسے سیاستدانوں نے، جن کے خاندان کئی دہائیوں تک ان علاقوں سے منتخب ہو کر حکومتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں، نے بلوچستان اور جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو بنیاد بنا کر نئی سیاسی جماعتیں بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اشرافیہ کے ایسے حصے جو خود بھی بلوچستان اور جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے ذمہ دار ہیں کیا وہ ان علاقوں کو محرمیوں سے نکال پائیں گے؟

سیاسی جماعتوں کو اس بات کا جواب دینا چاہیے کہ کئی کئی سالوں تک اقتدار میں رہنے کے باوجود کیا ان سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں نے ایسے اقدامات متعارف کروانے کے بارے میں سوچا کہ جن سے ملک میں رجعت پسندی، ذات پات، برادری ازم اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹ دینے اور لینے پر قدغن لگے؟

سیاست دراصل سماجی رویے کے ہی تابع ہوتی ہے۔ سماجی شعور نے سیاسی شعور کا تعین کرنا ہوتا ہے، نہ کہ سیاسی شعور نے سماجی شعور کا۔ سماجی شعور کو نظر انداز کرنے ہی کے باعث سیاسی جماعتیں بھی عملیت پسندی کے نام پر ایسے ایسے سمجھوتے کر لیتی ہیں کہ جس سے 'اسٹیٹس کو' برقرار رہتا ہے۔

حالیہ عرصے میں کیا کسی بڑی سیاسی جماعت نے عوام کو یہ باور کروایا کہ تھانہ، کچہری، نلکوں، نالیوں کی تعمیر اور نوکریوں کی سیاست کا تعلق پارلیمانی نظام کے تحت منتخب ہونے والے نمائندوں سے ہوتا ہی نہیں بلکہ ان مسائل کے حل کے لیے عوام کو اپنے آپ کو بلدیاتی سطح پر حقوق دلوانے پڑتے ہیں؟ کیا پاکستانی عوام کو یہ باور کروایا گیا کہ جاگیرداری نظام، برادریوں کی سیاست، فرقہ پرستانہ سیاست اور پیر پرستی، جمہوریت کے لیے ایک ایسے زہر ہیں جو اسے کھوکھلا کر دیتے ہیں؟

بدقسمتی سے اس وقت صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ میڈیا، سول سوسائٹی اور دیگر فعال طبقات بھی سیاسیات کی اس اہم حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے کہ کسی معاشرے میں سیاسی تبدیلی سے پہلے سماجی شعور کی سطح بلند ہونا ضروری ہو تی ہے۔

عمر جاوید جیو ٹی وی میں سینئر ریسرچر ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔