10 مئی ، 2018
حال ہی میں فیصل آباد میں ختم ہونے والے ون ڈے ٹورنامنٹ میں بیٹسمین چھائے رہے، ٹورنامنٹ میں 15 سنچریاں اسکور کی گئی اور رنز کے انبار لگ گئے۔
بیٹنگ کے لیے آئیڈیل کنڈیشن میں بولرز کو سخت مشکلات کا سامنا رہا جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ نئے فرسٹ کلاس سسٹم میں ون ڈے ٹورنامنٹ کو ایک سینٹر تک محدود رکھنے سے گریز کیا جائے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر آپریشنز ہارون رشید نے کراچی میں میڈیا کو بتایا کہ ایک سینٹر پر بیٹنگ پچوں پر ہونے والے ون ڈے ٹورنامنٹ پر چیف سلیکٹر انضمام الحق کو بھی پریشانی لاحق تھی۔
ہارون رشید نے بتایا کہ انضمام کا کہنا تھا کہ بیٹنگ وکٹ پر کئی بیٹسمین رنز کے ڈھیر لگا لیتے ہیں جس کے بعد سلیکٹرز کے لئے بھی مشکل ہوتا ہے کہ کسے ٹیم میں منتخب کریں اور کس کھلاڑی کو ڈراپ کریں۔
ہارون رشید نے کہا کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق کو تحفظات تھے کہ ون ڈے ٹورنامنٹ ایک سینٹر میں بیٹنگ وکٹ پر ہوتا ہے جس سے ہمیں کسی کھلاڑی کی کارکردگی کو پر کھنا مشکل ہوتا ہے، سلیکٹرز پر پریشر آجاتا ہے کہ کس کھلاڑی کو پاکستان ٹیم میں شامل کریں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی لیے پی سی بی نے آئندہ ون ڈے کرکٹ ٹورنامنٹ مختلف گراؤنڈز پر کرانے کا فیصلہ کیا ہے، فرسٹ کلاس اور ون ڈے ٹورنامنٹ ایک ساتھ کرانے سے کھلاڑیوں کی فٹنس کا بھی انداز ہ ہوگا، اس وقت ہمارے ڈومیسٹک سرکٹ کا فٹنس لیول دنیا میں سب سے کم ہے، فٹنس کو بہتر بنانے کے لیے پاکستانی ٹیم انتظامیہ ایک پلان پر کام کررہی ہے، یہ پلان ڈومیسٹک ٹیموں کو بھی دیا جائے گا تاکہ فرسٹ کلاس اور دیگر ٹورنامنٹس کا فٹنس لیول بھی انٹر نیشنل ٹیم کی طرح ہو۔
ہارون رشید نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں یہ شکایت عام تھی کہ 30 سے 40 فیصد کھلاڑی پورے سال کا ریٹینر شپ لیتے تھے لیکن وہ کھلاڑی سیزن میں ایک یا دو میچ ہی کھیلتے تھے۔ پورے سیزن میں زیادہ میچ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو فائدہ دینے کے لیے میچ فیس بڑھائی جارہی ہے۔ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو سالانہ معاوضہ اب زیادہ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پانچ سے چھ امپائروں کو سینٹرل کنٹریکٹ دیئے جاتے ہیں اور اس میں ہر سال ایک دو امپائروں کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے امپائروں کی کارکردگی انٹرنیشنل لیول کے معیار کی نہیں ہے، ہم نے حال ہی میں ایک سمینار کرایا تھا جس میں ڈی آرایس سسٹم کو سمجھانے کی کوشش کی۔
ہارون رشید نے کہا کہ اُس وقت واضح طور پر پتہ چل رہا تھا کہ امپائروں کو مشکل پیش آرہی ہے، اس میں آئی سی سی کے ماہرین بھی تھے، امپائروں کو ہم نے ڈی آر ایس کے لیے خاص تربیت دی، پاکستان کرکٹ بورڈ کے سسٹم میں بہتری آرہی ہے اور چیزیں جدت کے ساتھ ساتھ بہتری کی جانب بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں22فرسٹ کلاس ٹیموں سمیت48 ٹیمیں ڈومیسٹک سرکٹ میں شرکت کرتی ہیں، اتنی زیادہ ٹیموں کی وجہ سے کوالٹی متاثر ہورہی تھی اور ڈپارٹمنٹ کھلاڑیوں کو دو ماہ کے لیے ملازمت دے رہے تھے۔ کئی ڈپارٹمنٹ تنخواہیں ہی نہیں دیتے تھے۔ ہم نے 16 ٹیموں کو فرسٹ کلاس میں شامل کیا ہے تاکہ کوالٹی آئے، ہر سال اس سسٹم کا جائزہ لیا جائے گا۔