16 مئی ، 2018
کراچی: آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا ہےکہ نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کے ایک گواہ کےمکرجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم راؤ انوار ان دنوں جوڈیشل ریمانڈ پر اپنی رہائش میں قید ہیں جسے سب جیل قرار دیا گی ہے جب کہ عدالت نےکیس میں ملزمان پر 19 مئی کو فرد جرم عائد کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔
کورنگی ایسوسی ایشن میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نےکہا کہ 26 ہزار پولیس فورس این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کر کے مکمل شفافیت سے بھرتی ہوئی، شہر میں ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کے لیے دو سال میں کراچی ٹریفک پولیس کو 200 سے بڑھا کر ساڑھے 7 ہزار کر دیا گیا۔
انہوں نےکہا کہ پورے کراچی میں سیف سٹی منصوبے کے لیے 30 سے 35ارب روپےکی خرچ کرنے ہوں گے، لاہور میں سیف سٹی پروجیکٹ پر15 ارب روپے خرچ کرکے10 ہزار کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نقیب اللہ قتل کیس پربات کرتے ہوئے کہا کہ کرمنل اینڈ جسٹس سسٹم میں ہر ایک کا اپنا کردار ہوتا ہے، پولیس نے تفتیش کی حد تک اپنا کردار بخوبی ادا کیا اور پہلی بار پولیس نے نقیب کیس میں اپنے ہی ایک افسر کے خلاف بے رحمی سے تحقیقات کی ہیں۔
نقیب اللہ قتل کیس میں گواہ کے منحرف ہونے پر اے ڈی خواجہ کا کہنا تھاکہ پولیس کے ایک گواہ کے مکرجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دولڑکے عینی شاہد ہیں جو نقیب کے ساتھ تھے۔
آئی جی سندھ نے بتایا کہ 2018 کے 5 ماہ میں پولیس کی کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہر تھانے میں رپورٹنگ روم بنائیں ہیں جہاں کیمرہ لگایا گیا ہے تاکہ اگر کوئی پولیس اہلکار کسی شخص سے زیادتی کرے تو اسکی ریکارڈنگ سے اس پولیس اہلکار کے خلاف کارروائی ہوگی۔