18 مئی ، 2018
گزشتہ چند دنوں سے میں جہاں بھی جاتی ہوں، ہر جگہ میشا شفیع اور علی ظفر کے بارے میں سوال کیے جاتے ہیں اور لوگوں کی رائے واضح طور پر تقسیم نظر آتی ہے۔ میں نے اب تک اس بارے میں اس لیے کچھ نہیں لکھا کیونکہ میں اپنے ادارے میں یہی معاملات دیکھتی ہوں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ میری بات کو میرے ادارے کا آفیشل ورژن سمجھ لیا جائے۔ ویسے بھی لوگ اس طرح کے معاملات میں بہت جذباتی ہو جاتے ہیں، خاص طور پر اگر انھیں اپنی مرضی کی بات سننے کو نہ ملے۔
ایک بات جسے سمجھنا بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ ہراساں کیے جانے کے معاملات اتنے واضح نہیں ہوتے کہ ان کا حدود اربعہ جانے بغیر ان پر نقطہ نظر بیان کر دیا جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہراساں کیے جانے کا ہر واقعہ حالات کی مناسبت سے الگ ہوتا ہے۔ ایک ہی عمل، مختلف صورت حال میں بالکل الگ نہج پر دیکھا جاتا ہے، جس کا کسی اور واقعے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب بھی کوئی عمل کسی دوسرے کے لیے ناپسندیدہ ہو تو وہ ہراساں کیے جانے کے ذمرے میں آسکتا ہے۔
میشا اور علی کے معاملے پر تبصرہ کرنے کے بجائے میں صرف اس کے تفتیشی طریقہ کار پر بات کروں گی۔ ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں یا پھر نہیں جانتے۔ اگر جانتے ہیں تو کس نوعیت کی جان پہچان ہے۔ تھوڑی بہت یا پھر اچھے تعلقات ہیں۔ ایک ہی عمل ان دو صورتوں میں مختلف طریقوں سے جانچا جائے گا۔ میشا اور علی ایک دوسرے کے دوست تھے، دونوں کا تعلق ایک ہی پروفیشن سے ہے اس لیے وہ اکثر اس شعبے سے متعلق محفلوں میں بھی نظر آتے تھے۔
اس معاملے میں تفتیش کے دو رخ ہو سکتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ کیا میشا نے کسی بھی موقع پر علی ظفر کو اپنے اس موقف سے آگاہ کردیا تھا کہ وہ اب مناسب محسوس نہیں کر رہیں، یا انھیں روکا یا انکار کیا؟ اس سوال کو پوچھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ سامنے والا آپ کے تحفظات کو سمجھنے سے قاصر ہو، یا سمجھنا ہی نہ چاہتا ہو۔
میشا سے یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ علی کی کون سی بات یا عمل سے وہ ہراساں ہوئی تھیں۔
لیکن کسی بھی صورت میں مطلع کیا جانا ضروری ہے۔ چاہے براہ راست روک دیا جائے یا کسی اور کے ذریعے ناپسندیدگی کا واضح اظہار کر دیا جائے- اگر نہیں کیا تو دوسرے کو شک کا فائدہ جا سکتا ہے-
تاہم اگر واضح انکار کر دیا گیا ہے اور پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کی نوعیت مزید سنجیدہ ہو جاتی ہے۔ تفتیش کا یہ پہلو صرف اُس صورت میں قابل عمل ہوگا جب شکایت کرنے والا اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے، دونوں کی اچھی جان پہچان ہو جیسا کہ علی اور میشا کی تھی۔
ان دونوں کے تعلق پر کوئی سوال نہیں بنتا کیونکہ ان کی چاہے کیسی ہی دوستی رہی ہو اگر اب میشا اسے مناسب نہیں سمجھ رہیں تو انھیں کسی وجہ کے ہونے یا جواز بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی، کسی بھی وقت تعلق کو کم یا ختم کرسکتا ہے اور دوسرا اس کو برقرار رکھنے پر اصرار نہیں کرسکتا، لیکن قابل اعتراض عمل سے پہلے کی باتیں ہراساں کیے جانے کے ذمرے میں نہیں آئیں گی۔
البتہ میشا سے یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ علی کی کون سی بات یا عمل سے وہ ہراساں ہوئی تھیں۔ میشا کی جانب سے اب تک یہ بات سامنے نہیں آئی ہے، نہ ان کی ٹوئیٹ میں اور نہ ہی اس کے بعد دیئے گئے انٹرویو میں، کیونکہ تفتیش اور فیصلہ تو اس عمل کی بنیاد پر ہی ہوگا۔
آخر میں ایک بار پھر واضح کرتی چلوں کہ مندرجہ بالا تحریر صرف تفتیشی طریقہ کار پر ہے۔ اس معاملے سے متعلق دونوں فریقین اور لوگوں کا ردعمل، سوشل میڈیا کا کردار اور ان کی ذاتی زندگی اس تحریر کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہے۔
عظمی الکریم جیو ٹی وی کے شعبہ ’’صنفی حساسیت‘‘ کی سربراہ ہیں۔ انہیں Uzmaalkarim@ کے نام سے ٹوئٹر پر فالو کیا جا سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔