29 مئی ، 2018
کراچی: نقیب اللہ محسود کے والد نے سابق سینئر سرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کو سب جیل میں قید رکھے جانے کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی، جس پر سماعت کل بروز بدھ ہوگی۔
اپنی درخواست میں نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود نے موقف اختیار کیا کہ راؤ انوار کو گھر میں سب جیل بنا کر رکھنا غیرقانونی ہے۔
محمد خان محسود نے راؤ انوار کے سب جیل میں رکھے جانے کو اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے استدعا کی کہ سابق ایس ایس پی کو جیل منتقل کیا جائے۔
بعدازاں سندھ ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد خان نے کہا کہ 'وہ نہ نقیب کو بھول سکتے ہیں اور نہ اس کے خون کا سودا کرسکتے ہیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اگر راؤ انوار طاقتور ہے تو میں بھی محنت کش ہوں'۔
اس موقع پر گرینڈ جرگہ کے رہنما سیف الرحمان نے کہا کہ 'سندھ حکومت راؤ انوار کی پشت پناہی کر رہی ہے'۔
اس سے قبل گزشتہ روز انسداد دہشت گردی عدالت نے راؤ انوار کو سب جیل منتقل کرنے سے متعلق اعتراضات اور انہیں بی کلاس کی فراہمی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت 6 جون تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔
عدالت نے حکم سنایا تھا کہ آیندہ سماعت پر دونوں آرڈرز جاری کیے جائیں گے۔
راؤ انوار کے خلاف نیب میں درخواست
گزشتہ روز نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود نے راؤ انوار کے خلاف نیب میں بھی درخواست جمع کروائی تھی۔
چیئرمین نیب کے نام پر جمع کرائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 'راؤ انوار کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ 13 ہزار 772 روپے ہے، لیکن 2012 سے 2018 تک وہ دبئی کے 74 دورے کرچکے ہیں'۔
درخواست میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ '6 سال میں اتنی تنخواہ پر راؤ انوار کے اتنے غیر ملکی دورےکیسے ممکن ہیں'۔
محمد خان محسود نے الزام عائد کیا کہ 'راؤ انوار کے دبئی کے دوروں کا مقصد منی لانڈرنگ کرنا تھا اور سابق ایس ایس پی نے جرائم کی پشت پناہی کرتے ہوئے کروڑوں روپے بنائے'۔
نقیب اللہ کے والد کے مطابق 'راؤ انوار زمینوں پر قبضے، بھتہ، ریتی، بجری اور ایرانی ڈیزل کے غیرقانونی کاروبار میں ملوث ہیں اور ان کے اثاثے ان کی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہیں'۔
نقیب اللہ قتل کیس—کب کیا ہوا؟
رواں برس 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
بعدازاں 20 مارچ کو راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، جہاں چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر عدالت عظمیٰ کے احاطے سے راؤ انوار کو گرفتار کرکے کراچی پہنچا دیا گیا تھا، جہاں انسداد دہشت گردی عدالت میں ان کے خلاف نقیب قتل کیس کی سماعت جاری ہے۔