30 مئی ، 2018
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کا کہنا ہے کہ لارڈز ٹیسٹ جیت کر ٹیم کا مشن مکمل نہیں ہوا، پرانی جیت کو انجوائے ضرور کرنا چاہیے لیکن نیا میچ نئے عزم اور جذبے سے کھیل کر انگلینڈ کو شکست دینی ہوگی۔
ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ شکست کا خوف اعصاب پر سوار نہیں کرنا چاہیے۔
جیو نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انضمام الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلے ٹیسٹ میچ میں جس طرح انگلینڈ کو شکست دی ہے، اسی طرح وہ ٹیسٹ سیریز جیت کر ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی طرح دنیا کی صف اول کی ٹیسٹ ٹیم بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا، 'مجھے پوری امید ہے کہ لڑکے جس معیار کی کرکٹ کھیل رہے ہیں پاکستان ٹیم تینوں فارمیٹ میں دنیا کی ٹاپ ٹیم بن کر سامنے آئے گی'۔
انضمام الحق کے بقول حریف کو نہ آسان لینا ہوگا اور نہ ہی ایک جیت کے بعد کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے۔
ساتھ ہی اس جیت کا کریڈٹ کپتان سرفراز احمد، ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور کوچنگ اسٹاف کو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نوجوان کھلاڑی ٹیم کے ساتھ مسلسل محنت کررہے ہیں جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی تعریف کا مستحق ہے جو سلیکٹرز اور ٹیم انتظامیہ کے پیچھے کھڑا ہے اور ہر فیصلے کا دفاع کررہا ہے۔
واضح رہے کہ دو سال قبل انضمام الحق کے چیف سلیکٹر بننے کے بعد پاکستان ٹیسٹ میں نمبر ایک بنا تھا، پھر اس فارمیٹ میں ٹیم نیچے چلی گئی۔ پاکستان نے پہلی بار ویسٹ انڈیز سے اس کے میدانوں میں ٹیسٹ سیریز جیتی۔ انگلینڈ کے خلاف 2016 میں ٹیسٹ سیریز برابر کی۔ سری لنکا سے ہوم گراؤنڈ میں شکست ہوئی۔آئی سی سی چیمیئنز ٹرافی کا اعزاز حاصل کیا اور اس وقت ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نمبر ایک ہے۔
انٹرویو کے دوران ماضی کے عظم بیٹسمین نے کہا کہ لارڈز کی کارکردگی نے دنیا بھر کے مبصرین کو حیران کردیا ہے۔ یہ جیت پاکستان کرکٹ کے لیے بہت اچھی ہے۔ ہمیں ہار کا خوف دل سے نکال کر آگے بڑھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کے خلاف نو وکٹوں کی فتح نے سلیکشن کمیٹی کو اطمینان دیا ہے کہ کچھ لوگ غیر ضروری طور پر ٹیم کو اور سلیکٹرز کو ٹارگٹ کر رہے تھے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'اچھی خبر کسے بری لگتی ہے، یقینی طور پر سلیکشن کمیٹی بھی اطمینان محسوس کررہی ہے کہ ہم نے نیک نیتی سے جن 16 کھلاڑیوں پر اعتماد کا اظہار کیا، ان 16 کھلاڑیوں نے پاکستان کو فتح دلوائی، لیکن میرا نظریہ یہی ہے کہ جو میچ ختم ہوگیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔اب پاکستان کو لیڈز کا قلعہ بھی سر کرکے نئی تاریخ رقم کرنا ہوگی'۔
انضمام الحق نے کہا کہ 'جب میں نے اس ٹیم کی ذمے داری لی تھی، اُس وقت میرا یہی ہدف تھا کہ پاکستان ٹیم تینوں فارمیٹ میں اوپر جائے۔ ٹی ٹوئنٹی میں اس وقت ہم نمبر ایک ہیں، ون ڈے میں گزشتہ سال چیمپیئنز ٹرافی جیتی۔اس فارمیٹ میں بھی ہم اوپر آرہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا، ٹیسٹ میں یونس خان، مصباح الحق اور محمد حفیظ کے بعد ایک خلاء تھا، لیکن اس خلاء کو پورا کرتے ہوئے اب ٹیسٹ ٹیم بھی جیت رہی ہے۔
اتوار کو ختم ہونے والے لارڈز ٹیسٹ میں فتح کے نتیجے میں پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف سیریز میں ناقابلِ شکست برتری حاصل ہو گئی ہے۔ اس سیریز کا دوسرا اور آخری کرکٹ ٹیسٹ یکم جون سے لیڈز میں کھیلا جائے گا۔
انضمام الحق نے کہا کہ اگر یہ ٹیم اپنی صلاحیت پر کھیلی اور ہار سے گھبرانے کی روش ترک کردی تو جلد اسے ٹیسٹ میں بھی مقام ملے گا، لیکن کسی بھی فارمیٹ میں اپنی رینکنگ کو بہتر کرنے کے لیے کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا، 'میں نے اس ٹیم کو گزشتہ 2 سال سے بہت قریب سے دیکھا ہے۔لڑکے، مکی آرتھر اور سرفراز احمد کے ساتھ بہت محنت کررہے ہیں۔ اب ٹیم کو مسلسل اور انتھک محنت کا صلہ مل رہا ہے اور انگلینڈ آنے سے قبل کسی کو اس کارکردگی کا یقین نہیں تھا، میں اس ٹیم کو قریب سے دیکھ رہا ہوں میرے خیال میں ایک سے 2 سال میں ٹیسٹ ٹیم بھی صف اول کی ٹیم بن جائے گی اور جو کھلاڑی انگلینڈ میں مشکل پچوں پر کارکردگی دے رہے ہیں، ان کے لیے ایشیئن پچوں پر کارکردگی دکھانا آسان ہوجائے گا۔
انضمام نے کہا کہ چیف سلیکٹر کی حیثت سے میں بھی اپنی کارکردگی سے خوش ہوں، لیکن غیر ضروری غلطیاں تلاش کرنے والے خدا کا خوف کریں اور اچھی کارکردگی کی تعریف کریں۔ مجھے سلیکشن معاملات پر کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے'۔
محمد عامر کی کارکردگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 'میں نے عامر کو یہی مشورہ دیا تھا کہ تمہارے پاس ٹیلنٹ ہے اور تم کرسکتے ہو، تمہیں ذمے داری لینے کی ضرورت ہے۔اس نے میری باتوں کو غور سے سنا اور وعدہ کیا کہ وہ اس سیریز میں مختلف بولر دکھائی دیں گے'۔
چیف سلیکٹر نے کہا کہ سابق کرکٹرز تنقید ضرور کریں لیکن اپنے کھلاڑیوں کو سپورٹ بھی کریں، غیر ضروری تنقید بہت سارے مسائل پیدا کرتی ہے۔
انضمام کا کہنا تھا کہ اس ٹیم میں اسد شفیق اور اظہر علی تجربہ کار تھے، انہوں نے جونیئرز کے لیے مثال قائم کی۔ موجودہ ٹیم کی اچھی بات یہ ہے کہ جس کھلاڑی کو موقع مل رہا ہے وہ کارکردگی دکھا رہا ہے اور کھلاڑی ایک دوسرے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اسپن بولنگ کے شعبے میں مزید بہتری کی ضرورت ہے ، یاسر شاہ اور شاداب خان کے بعد اس شعبے میں مزید مضبوطی لانی ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ شاداب کو ٹیسٹ کرکٹ میں بولنگ کے لیے مزید محنت درکار ہے، لیکن شاداب خان اور فہیم اشرف کی شمولیت سے ٹیم متوازن ہوگئی ہے۔