03 اگست ، 2018
کراچی میں کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کو ورلڈ کلاس سہولیات فراہم کرنے میں مرحوم ڈاکٹر محمد علی شاہ کی کاوشوں سے کون انکار کر سکتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ڈاکٹر شاہ نے اپنی آخری سانس تک کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کو ابھارنے کے لیے اپنی تگ و دو جاری رکھیں۔ خاص طور پر کرکٹ اور ہاکی سے ان کی والہانہ عقیدت کا جیتا جاگتا ثبوت کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں قائم عالمی معیار اور سہولیات سے آراستہ کرکٹ اسٹیڈیم اور ڈاکٹر شاہ ہاکی اکیڈمی ہیں۔
کراچی میں کرکٹ کے تقریباً تمام ہی فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ اور میچز اسی اسٹیڈیم میں منقعد کیے جاتے ہیں لیکن کھیلوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ہاکی اکیڈمی سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کیے جاسکے۔
یہ ہاکی اکیڈمی مرحوم ڈاکٹر محمد علی شاہ نے اپنی نگرانی میں تعمیر کروائی تھی، اس کے قیام کے فوراً بعد اس اکیڈمی میں ٹیموں کے درمیان ہاکی میچز کے علاوہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو تربیت بھی دی جانے لگی ۔ کراچی کے کھلاڑی بہت خوش تھے اور محنت کر رہے تھے جب کہ یہاں کئی ٹورنامنٹس بھی کروائے گئے اور اکیڈمی میں قومی کھلاڑیوں کے لیے سہولیات بھی مہیا کی گئیں ۔
پھر ڈاکٹر شاہ نے اس اکیڈمی کا انتظام اولمپئن اصلاح الدین کے حوالے کرکے سوچا کہ اب یہ اکیڈمی زیادہ بہتر اور پروفیشنل انداز میں عالمی میعار کے کھلاڑی تیار کرے گی۔ ساتھ ہی کراچی کی لڑکیوں کو بھی بہتر ماحول میں ہاکی کی تربیت حاصل کرنے کی سہولت مل سکے گی۔
ابتداء میں ڈاکٹر شاہ کے ساتھ صحافی بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ اکیڈمی ہاکی کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دے گی۔
حال ہی میں یہاں بین الاقوامی ٹونامنٹ میں شرکت کے لیے جانے والی پاکستان ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کا تربیتی کیمپ لگایا گیا۔ اُن کی رہائش اور طعام وغیرہ کا بندوبست بھی اسی اکیڈمی میں ہوا، بظاہر یہ قدم ہاکی کے فروغ کے لیے دکھائی دیا مگر جب دیگر صحافی کھلاڑیوں کی تربیت کا جائزہ لینے اکیڈمی پہنچے تو اسٹیدیم کا حال دیکھ کر حیرت سے اسے تکتے رہ گئے۔
یہ حیرت اس کی بہتری پر نہیں بلکہ نہایت ابتر حالت دیکھ کر ہو رہی تھی، کھلاڑیوں کے لیے سہولیات تو ایک طرف ان کے لیے پینے کے پانی کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔ ایک طرف پانی کی صرف ایک بوتل رکھ کر پانی کے انتظام کا دعویٰ کیا گیا جو شاید دو سے تین کھلاڑیوں کے لیے بھی کم تھا۔
ایک طرف نیلی آسٹو ٹرف جگہ جگہ سے ادھیڑ کر دیکھ بھال کرنے والوں کا پول کھول رہی تھی تو دوسری جانب بنیادی سہولیات کا فقدان منہ چڑھا رہا تھا۔
مناسب پانی کا چھڑکاؤ نہ ہونے کی وجہ سے آسٹوٹرف کھیلنے کے لیے نہایت برے حال میں تھی جس پر کھلاڑی کھیل کے دوران گر کر چوٹ لگنے سے بچنے کی کوشش میں بھی تھے۔
اس صورت حال نے ڈاکٹرشاہ کی اہلیہ اسماء شاہ کو اس اکیڈمی کے قیام کے مقاصد پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا۔
ایک انٹرویو میں اسما شاہ نے کہا کہ جس مقصد کے لئے ڈاکٹر شاہ نے ہاکی اکیڈمی بنائی تھی وہ پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی پورا نہ ہوسکا، وہ اکیڈمی کی حالت زار دیکھ کر بہت افسردہ ہیں ۔
انہوں نے اولمپئن اصلاح الدین پر الزام عائد کیا ہے کہ ہاکی کی ترقی پر اُن کی زیادہ توجہ نہیں اور انہوں نے اکیڈمی سے خواتین کو ہاکی کی تربیت بالکل ختم کر کے ان پر کیڈمی کے دروازے بند کردیئے ہیں۔
اسما شاہ کا کہنا تھا کہ اکیڈمی کوچ صغیر عباس بہت اچھے طریقے سے کھلاڑیوں کو ٹریننگ دے رہے تھے مگر وہ بھی اصلاح الدین کے رویے سے مایوس ہوکر چلے گئے، اب وہاں کیا ہورہا ہے کچھ نہیں پتا۔
اسما شاہ نے مزید کہا کہ چار سال پہلے ڈاکٹر شاہ کی انتھک کوششوں کے بعد سندھ حکوت نے دو کروڑ روپے کی گرانٹ دی جسے ہاکی اور کھلاڑیوں پر خرچ کیا جانا تھا مگر اس رقم کو بینک میں ڈال کر اس سے سود کمایا گیا، اگر اس رقم کا کچھ حصہ گراؤنڈ اور کھلاڑیوں پر لگ جاتا تو بہترین پلئیرز اکیڈمی سے نکلتے۔
انہوں نے کہا کہ اکیڈمی اور ڈاکٹر شاہ کا نام ساتھ ساتھ آتا ہے اور ان کی اہلیہ ہونے کے ناطے لوگ اکثر مجھ سے اکیڈمی کے بارے میں پوچھتے ہیں مگر میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
مسز شاہ نے خواہش ظاہر کی کہ اکیڈمی میں لڑکیوں کی ہاکی بحال کی جائے اور ان کے لیے اکیڈمی میں ایک حصہ کو مخصوص کیا جائے جہاں خواتین ہاکی کی ٹریننگ حاصل کرکے اس کو فروغ دے سکیں۔
یہ تمام صورت حال جان کر افسوس بھی ہوا اور حیرانی بھ اور میرے ذہن میں سوال سر اٹھا رہا تھا کہ اصلاح الدین جیسا مایہ ناز اولمپیئن ایسا کس طرح کر سکتا ہے؟ لہٰذا میں اصلاح الدین سے ان موقف معلوم کرنے گیا۔
سابق اولمپئن اصلاح الدین نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مسز شاہ کا اکیڈمی سے کوئی تعلق نہیں، وہ ویمنز ہاکی کی چئرپرسن ہیں اور وہ اکیڈمی بھی آتی ہیں اور خواتین ہاکی کو دیکھتی ہیں۔ خواتین صبح کے اوقات میں کھیلتی ہیں شام میں مردوں کے ہوتے ہوئے ان کا کھیلنا مناسب نہیں۔
انہوں نے کہا جنید علی شاہ اکیڈمی بورڈ کے چئیرمین ہیں، وہ میٹنگ اٹینڈ کرنے آتے ہیں، بورڈ میں اکثریت اولمپئنز کی ہے جن کی مشاورت سے اکیڈمی چلتی ہے۔
اکیڈمی کے کوچ صغیر عباس کے چھوڑنے کے سوال پر اصلاح الدین کا کہنا تھا کہ وہ اکیڈمی کیوں چھوڑ کر گئے آج تک معلوم نہیں ہوسکا، انہیں متعدد بار فون کیا مگر انھوں نے کال اٹھانا بھی گوارا نہیں کیا۔
سابق اولمپیئن نے کہا کہ دو کروڑ اب ڈھائی کروڑ ہوگئے ہیں اور جب ضرورت پڑے گی تو فنڈز کو استعمال کریں گے، انھوں نے کہا کہ حکومت سندھ کا ان سے 30 سال کا معاہدہ ہے۔
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور ایک وقت تھا جب اولمپکس سمیت تمام ٹائٹل پاکستان ہاکی ٹیم کے پاس تھے اور یورپ اور ایشیا کی ٹیمیں پاکستان کو شکست دینے کا خواب دیکھا کرتی تھیں۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے اراکین قابل اور وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار لوگوں تھے جس کا نتیجہ بھی سامنے تھا، ٹیم کے کوچ منیجر اور کھلاڑی انتھک محنت اور لگن سے کھیلا کرتے تھے۔
پھر اس کھیل سے کھلواڑ شروع ہوگیا اور آہستہ آہستہ تمام میڈل چھن گئے، اولمپکس چیمپئن ٹیم کے لیے کوالیفائی کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ ہاکی فیڈریشن کے اراکین کی بے توجہی اور بے فکری کے ساتھ ساتھ اقربا پروری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس کھیل کے ساتھ کھیل ہو گیا اور یہ سب کرنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اس کے اپنے ہیں۔
کچھ "کھلاڑی " ہاکی کی ڈاجنگ ٹیکنیک سے فیڈریشن کے اہم عہدوں تک پہنچ گئے اور کچھ اکیڈمی سے کمانے لگے، بات کسی دوسری جانب نکل گئی۔
ماہرین کاماننا ہے کہ اولمپئن اصلاح الدین، ڈاکٹر شاہ ہاکی اکیڈمی کے مالی معاملا ت کا کسی غیر جانبدار اور ماہر فرم سے آڈٹ کروا کر شفافیت لانا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ ساتھ ہی اکیڈمی کی تعمیر و ترقی اور دیکھ بھال کا انتظام بھی کسی غیر جانبدار بورڈ کے حوالے کر دیا جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔