بلاگ
Time 01 ستمبر ، 2018

وزیراعظم عمران خان سے بس چھوٹی سی گزارش!

عمران خان نے نہ صرف قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سادگی اپنانے کا اعلان کیا بلکہ حلف برداری کی تقریب میں بھی سادگی کا مظاہرہ کیا—فائل فوٹو/رائٹرز

ہر مرتبہ جیسے ہی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتا ہے، انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے معصوم لوگوں کو ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن لوگوں کی معصومیت کا کیا کہیے کہ وہ پچھلی کئی دہائیوں سے اسی انتظار میں ہیں کہ شاید اس بار ہی کچھ بہتر ہوجائے، لیکن ہر پانچ سال بعد حالات پہلے سے بھی ابتر ہی نظر آتے ہیں۔

عوام کو بنیادی حقوق دینے کی بات ہو، انصاف دینے کی بات ہو، مہنگائی ختم کرنے کی بات ہو یا پھر روزگار دینے کی بات ہو، معاملہ جھوٹے وعدوں سے کبھی آگے نہیں چلتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو بہت اچھا سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 'روٹی، کپڑا اور مکان' دینے کا نعرہ سب سے پہلے بھٹو نے ہی لگایا تھا، جو ان کی حکومت سے لے کر آج تک دینے کے بجائے چھنتا ہی چلا جارہا ہے۔

عام انتخابات 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی لوگوں سے خوب وعدے کیے، جن میں سے سرِفہرست 50 لاکھ مکان بنا کر دینا، ایک کروڑ افراد کو نوکریاں دینا، سادگی اپنانا، ٹیکس کی رقم اکٹھی کرکے لوگوں پر لگانا اور لوگوں کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات دینا شامل ہیں۔ وعدے تو خیر اور بھی بہت سے کیے گئے ہیں، لیکن اب دیکھتے ہیں کہ ان وعدوں پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے۔

عمران خان نے نہ صرف قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سادگی اپنانے کا اعلان کیا بلکہ حلف برداری کی تقریب میں سادگی کا مظاہرہ کیا اور ڈیزائنر کے بجائے عام درزی کی سِلی ہوئی شیروانی زیب تن کی۔ ساتھ ہی انہوں نے کم گاڑیاں استعمال کرنے کا اعلان کیا لیکن پھر اپنے ذاتی گھر آنے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال شروع کردیا۔ وہ شیخ رشید جو عام موٹر سائیکل پر ووٹ مانگتے تھے، اب اپنی گزرگاہ پر کھڑی موٹر سائیکلیں گروا کر آئندہ نہ کھڑی کرنے کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی جہاز میں اپنے خاندان کو خوب گھمایا اور سرکاری وسائل استعمال کرکے پاکپتن دربار پر حاضری دی۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ سادگی اور کفایت شعاری پر کتنا عمل ہوگا۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے،آگے دیکھتے ہیں ہوتا کیا ہے!

خیر یہ سب باتیں تو ایک طرف، لیکن عمران خان نے عوام سے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ ایک ہی دن میں پورا کردیا جو پچھلے 70 سال سے کوئی حکومت آج تک پورا نہ کرسکی۔ الٰہ دین بھی سوچتا ہوگا کہ میرے چراغ رگڑنے سے اتنی جلدی کام نہ ہوسکا جتنا جلدی عمران خان نے کردیا۔ وزیراعظم  عمران خان نے کہا کہ وہ ایسی پالیسی بنا رہے ہیں کہ جو شخص کرپشن کو پکڑوائے گا اسے 20 فیصد تک کمیشن کا حصہ دیا جائے گا، اس طرح کوئی شخص کرپشن کے 5 کروڑ پکڑوائے گا تو اس کو کمیشن کے ایک کروڑ روپے ملیں گے۔ یہ ہوئی اس کی نوکری اور اس طرح وہ ایک کروڑ میں سے پچاس لاکھ کا گھر خریدنے کے بھی قابل ہوجائے گا۔ ہے ناں مزے کی بات؟

ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں اور پچاس لاکھ لوگوں کو اس طرح گھر تو مل جائیں گے لیکن عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ کرپشن کی شکایت کرنے کا طریقہ کیا ہوگا اور اگر دی گئی درخواست جھوٹی ثابت ہوئی تو اسے کیا سزا ہوگی۔ دوسرا اس طرح ملک میں درخواست بازی شروع ہوجائے گی، جو ایک الگ مسئلہ ہوگا اور نیب سنبھال بھی نہ سکے گا۔

ویسے تو ہمارا ادارہ نیب اچھا کام کرتا ہے لیکن بعض جگہوں پر وہ لوگوں کو غیر ضروری تنگ بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ ایک شخص کے پاس تمام پیسہ بنک میں ہے، جس کا ٹیکس بھی ادا کردیا گیا ہو اور ایف بی آر کے پاس ریٹرن بھی جمع ہوچکا ہے، لیکن پھر بھی پوچھا جاتا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا جبکہ ایف بی آر اس کو پوچھنے کا اختیار رکھتا ہے اور اگر ایف بی آر سمجھتا ہے کہ کرپشن کا پیسہ ہے تو نیب کو کیس بھیج سکتا ہے۔

آخر میں وزیراعظم عمران خان سے بس اتنی سی گزارش ہے کرپشن کے خلاف جنگ ضرور لڑیں، پالیسیاں بھی ضرور بنائیں لیکن کوئی ایسی پالیسی نہ بنائی جائے جس سے بہتری آنے کے بجائے نئے مسائل کھڑے ہوجائیں اور 'پارٹی' جلد ہی 'اوور' ہوجائے۔       


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔