کھیل
Time 24 ستمبر ، 2018

آخر چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم کو کیا ہوگیا؟

باؤلر چل نہیں رہے، بیٹسمین چلتے چلتے رک جاتے ہیں اور فیلڈر کیچ چھوڑ زیادہ رہے ہیں، کارکردگی میں یہ گراوٹ کسی خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ فوٹو: بشکریہ آئی سی سی

ایشیا کپ ٹورنامنٹ میں باؤلر چل نہیں رہے، بیٹسمین چلتے چلتے رک جاتے ہیں اور فیلڈر کیچ چھوڑ زیادہ رہے ہیں اور پکڑ کم، کیا ہو گیا ہے چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم کو؟

کارکردگی میں یہ گراوٹ کسی خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے، کسی سازش کی یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے؟ اگر ٹورنامنٹ میں شامل پاکستانی ٹیم کا جائزہ لیں تو ایسا نہیں لگتا کہ اس ٹیم کے سلیکشن میں کچھ خاص ’’گڑبڑ‘‘ ہے۔ 

حفیظ اور عماد وسیم کی ٹیم میں عدم شمولیت پر کچھ ہلکی ہلکی آوازیں تو اٹھیں لیکن کچھ زیادہ شور شرابا بہرحال نہیں ہوا، ہانگ کانگ کے ساتھ میچ ہوا، بچاروں کو جلدی سے آؤٹ کر کے اسکور پورا کردیا، سب اچھا ہے کی رپورٹ ملی اور سب مطمئن ہو کر بیٹھ گئے۔ 

پھر انڈیا کے ساتھ میچ میں توقعات کے برخلاف پاکستان کی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گئی، باؤلنگ بھی کچھ نہ کرسکی، شاہینوں کی کارکردگی پر کہا گیا کہ اسے برا دن سمجھ کر بھلا دیں ، ہماری ٹیم اتنی خراب بھی نہیں۔ 

 افغانستان کے خلاف میچ میں افغان ٹیم نے شاہینوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے، امام الحق، بابر اعظم اور شعیب ملک نے جیسے تیسے پاکستان کی گاڑی اسٹیشن تک تو پہنچا دی لیکن ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ 

فخر زمان اور سرفراز کسی نادیدہ دباؤ میں دکھائی دیئے اور ویسی کارکردگی نہ پیش کر سکے جو ان کا خاصہ سمجھی جاتی ہے اور اب انڈیا کے ساتھ کل آخری میچ میں نو وکٹوں سے شکست تو ہمارے ماتھے کا کلنک ہی بن گئی ہے۔ 

یہ کوئی ایک برا دن یا ایک بری پرفارمنس نہیں، اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ بھلے قسمت کی کسی الٹ پلٹ کے باعث ہم یہ ٹورنامنٹ جیت بھی جائیں لیکن کارکردگی اور معیاری کرکٹ کھیلنے کے لحاظ سے یہ ٹورنامنٹ اچھا نہیں گیا۔ 

اچھی ٹیموں کی خوبی ان کی مستقل مزاجی ہوتی ہے جو ہم میں نہیں، ایسے تمام مواقعوں پر جب ہمیں اچھا کھیل دکھانا تھا یا دوسروں کو دباؤ میں لاکر میچ کو اپنی گرفت میں کرنا تھا، ہم بری طرح ناکام رہے، اس ٹورنامنٹ میں اب تک کے سامنے آنے والے ’’نمبرز‘‘ کا جائزہ لیں تو صورتحال تشویشناک دکھائی دیتی ہے۔ 

ٹورنامنٹ کے ٹاپ فائیو بلے بازوں میں صرف شعیب ملک نظر آتے ہیں وہ بھی پانچویں پوزیشن پر، اب تک انھوں نے اس ٹورنامنٹ کی اپنی چار اننگز میں 181 رنز بنائے ہیں جبکہ اس فہرست میں سب سے اوپر موجود شکھر دھون 327 رنز کا انبار لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھی روہت شرما کے پاس بھی 269 رنز کا مجموعہ موجود ہے جو اس امر کو واضح کررہا ہے کہ انڈیا کا ٹاپ آرڈر اس ٹورنامنٹ میں اپنے مڈل آرڈر پر کسی قسم کا دباؤ پڑنے نہیں دے رہا۔ 

پاکستان کی ٹیم کیلئے ماضی میں بہترین کارکردگی دکھانے والے فخر زمان تقریباً 64 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ چار اننگز میں محض 55 رنز جوڑ سکے ہیں جس کا واضح اثر پاکستان کی مجموعی کارکردگی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ 

ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ٹیم باؤلنگ سے جیتتی ہے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں، محمد عامر، حسن علی، شاہین، عثمان اور شاداب مجموعی طور پر ایک اچھا باؤلنگ اٹیک قرار دیئے جانے کے اہل ہیں لیکن اب تک اس ٹورنامنٹ کے ٹاپ باؤلرز میں پاکستان کا بہلا باولر شاداب بیسویں نمبر پر نظر آتا ہے۔ 

جی ہاں تین میچوں میں تین وکٹوں کے ساتھ بیسویں نمبر پر، حسن علی اکیاون اور شاہین آفریدی چالیس کے اوسط کے ساتھ پاکستانی باؤلنگ کی نیا کو پار لگانے کی ناکام کوششوں میں مگن نظر آتے ہیں۔ 

اگر ہمیں اس ٹورنامنٹ میں آگے جانا ہے تو باؤلنگ ڈپارٹمنٹ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ محمد عامر کی حالیہ دنوں کی کارکردگی اب انھیں کسی بھی میچ کیلئے آٹومیٹک چوائس نہیں بناتی، انھیں اب اپنی جگہ بنانے کیلئے دوبارہ سے محنت کرنا ہو گی بصورت دیگر اب وقت آگیا ہے کہ ان کی جگہ دوسرے کھلاڑیوں کو آزمایا جائے۔ 

کچھ حلقوں کی جانب سے جنید کو ٹیم میں ہوتے ہوئے بھی اب تک موقع نہ دیئے جانے پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے، ویسے اگر ہمارے باؤلروں کی پٹائی ہو رہی ہے تو اس میں ہمارے فیلڈروں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ صرف افغانستان اور انڈیا کیخلاف میچز میں ہم کم از کم چھ کیچز چھوڑ کر ایک اچھی فیلڈنگ ٹیم ہونے کے اپنے دعوے کے آگے سوالیہ نشان لگوا چکے ہیں۔ 

ان تمام کمزوریوں کے ساتھ سرفراز بطور بیٹسمین اور کپتان متاثر کن نظر نہیں آئے اور ان کے ساتھ ساتھ اگر مکی آرتھر نے ہمارے باؤلروں اور بلے بازوں کو کوئی پلان دیا تھا تو وہ بھی دکھائی نہیں دیا۔ 

دوسری جانب روہت شرما سمیت پوری انڈین ٹیم بنا کسی دباؤ کے نہایت اچھا کھیل پیش کررہی ہے اور تو اور افغانستان کے ’’نو سیکھئے‘‘ بھی ہم کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں جس سے آنے والے دنوں میں ان کی کارکردگی میں مزید بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ 

اب پاکستان کا اگلا میچ بنگلہ دیش سے ہے جسے جیت کر ہم ٹورنامنٹ کے فائنل میں اپنی جگہ پکی کرسکتے ہیں، قوم اس خیال کے حقیقت میں بدلنے کیلئے دعاگو ہے، بس ڈر صرف اس بات کا ہے کہ کہیں گزشتہ دو میچوں کی طرح اس بار بھی انڈیا سے مقابلہ یکطرفہ نہ نکلے، امید ہے کہ فائنل میں پہنچ کر ہمارے فیل ہوتے ہوئے پلان اور اہم کھلاڑی چل پڑیں اور ایشیا کپ کی صورت میں ہمیں کوئی فوری ’’ریلیف‘‘ مل سکے۔ 

مزید خبریں :