01 اکتوبر ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وکیل خواجہ حارث کی عدم حاضری پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا جبکہ پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان بھی قلمبند نہ ہوسکا۔
احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔
عدالت نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں آج پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو بیان قلمبند کروانے کے لیے طلب کر رکھا تھا۔
آج سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
جس پر جج احتساب عدالت ارشد ملک نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ایسے تھوڑی ہوتا ہے کہ ملزم اپنی مرضی سے آئے'۔
جبکہ معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'خواجہ حارث کی طبیعت خراب ہے'۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ 'نواز شریف نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر نہیں کی، یہ مرضی سے عدالت کو چلانا چاہتے ہیں'۔
اس موقع پر معاون وکیل نے کہا کہ 'میں اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا'۔
جس پر عدالت نے سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کردیا۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر بھی نواز شریف اور وکیل خواجہ حارث پیش نہ ہوئے، جس پر جج ارشد ملک نے معاون وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ملزم بھی نہیں ہے اور وکیل بھی نہیں۔ میں سارا دن آپ کا انتظار کرتا رہوں گا'۔
جج ارشد ملک نے مزید کہا کہ 'میں نے آپ کا کیس سننے کے لیے باقی کیس ملتوی کیے، مجھے بتادیں آپ لوگ چاہتےکیا ہیں؟'
ساتھ ہی انہوں نے کہا، 'میں آرڈر لکھوا دیتا ہوں، آپ لوگ پھر چیلنج کرتے رہنا'۔
معاون وکیل نے معزز جج سے کہا کہ 'نواز شریف سے رابطہ کیا جارہا ہے، مجھے چند منٹ دے دیں پتہ کرکے بتاتا ہوں'۔
معاون وکیل نے مزید کہا کہ 'میں نے آصف کرمانی سے رابطے کی کوشش کی، وہ فون نہیں اٹھا رہے اور جن سے رابطہ ہوا وہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو آج عدالت پیش ہونا تھا'۔
بعدازاں معاون وکیل کی جانب سے احتساب عدالت کو بتایا گیا کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ ریفرنس کی الگ الگ تاریخوں کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی، جس کی وجہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔
معاون وکیل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت وقت دے تو نواز شریف 2 سے 3گھنٹے میں پیش ہوجائیں گے، تاہم عدالت نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔
اس کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی گئی تھی اور وہ اڈیالہ جیل میں قید تھے، تاہم 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے تینوں کی سزائیں معطل کرکے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور دیگر کی سزا معطلی اور بریت کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی اپیلیں زیرِسماعت ہیں۔
دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے، جو اس وقت زیرِ سماعت ہیں۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے جبکہ نواز شریف ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے، جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا تھا جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔