بلاگ
Time 02 اکتوبر ، 2018

ایشیا کپ کے منیجر ٹیکنیکل کمیٹی کی نظر میں پاکستان کی کارکردگی

پاکستان نے ایشیا کپ میں جنید خان کو صرف بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں موقع دیا تھا— اے ایف پی فوٹو

میں ایک تقریب میں شرکت کے لیے ترکی جا رہا تھا کہ مجھے پاکستان کرکٹ بورڈ سے ایک فون موصول ہوا۔ میں نے فون ریسیو کیا تو دوسری جانب سے آواز آئی :

ہیلو ۔۔ ۔ سکندر بخت صاحب سے بات ہو رہی ہے؟

میں نے جواب دیا ، جی سکندر بول رہا ہوں۔

جی میں پی سی بی سے فلاں (اس شخص نے اپنا تعارف کروایا ) بات کررہا ہوں ۔ کیا آپ ایشیا کپ میں منیجر ٹیکنیکل کمیٹی بننا پسند کریں گے؟

میں نے کہا ضرور لیکن پہلے مجھے اپنے ادارے جیو نیوز سے بات کرنا ہوں گی ۔

دوسری جانب سے کہا گیا ۔۔ ۔ٹھیک ہے ہم آپ کی کال کا انتظار کریں گے ۔

فون بند ہونے کے بعد میں نے جیو میں اپنے سینئر سے بات کی جنہوں نے جانے کی اجازت دے دی۔

میں نے فون پر اپنی رضامندی کا بتایا تو انہوں نے مجھے وہاں کام سے آگاہ کیا۔

سکندر صاحب آپ کو وہاں ایشین کرکٹ کونسل کی کمیٹی ممبر کی حیثیت سے فرائض انجام دینا ہوں گے ۔ کمیٹی کی ذمہ داریوں میں اگر کوئی ٹیم ٹورنامنٹ کے دوران تبدیلی چاہتی ہے تو اسے ہماری کمیٹی کی اجازت درکار ہو نا تھی ۔اس کے علاوہ تمام میچز میں "مین آف دی میچ" اور"پلیئر آف دی ٹورنامنٹ " کا فیصلہ بھی ہماری کمیٹی کو کرنا تھا۔

میں نے اپنے قیام کے دوران محسوس کیا کہ پاکستان ٹیم کے چند ایک سینئر کھلا ڑیوں کے علاوہ سارے نوجوان کھلاڑی مجھ سے کترا رہے تھے

اس کمیٹی میں پاکستان سے میں، سری لنکا سے سنت جے سوریا، افغانستان سے ان کے سابق کپتان اور چیف سلیکٹر نوروز منگل، بنگلا دیش سے ان کے سابق چیئرمین عنایت سراج اور بھارت سے سابق ٹیسٹ کرکٹر شیوا راما کرشن شامل تھے۔

معاملات طے پانے کے بعد میں دبئی کے لیے روانہ ہوا۔ ایئر پورٹ پر لیموزین گاڑی مہیا کی گئی جو ہمیں سیدھا ہوٹل لے گئی۔ اگلے دن ناشتے پر میری بھارت کے علاوہ تمام ٹیموں کے کھلاڑیوں ، ٹیم آفیشلز اور امپائروں سے ملاقات ہوئی۔ بھارت اس ٹورنامنٹ کا میزبان تھا لہٰذہ بھارتی ٹیم کو علیحدہ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ بھارتی ٹیم دوسری ٹیموں کے ساتھ رہنے کے بجائے اپنی مرضی کے ہوٹل میں رکنا چاہتی تھی اور اس نے اپنے بورڈ سے مل کر یہ مطالبہ منوا لیا۔ اس کے علاوہ بھارت نے اپنے تمام میچز دبئی میں رکھوائے جس کی وجہ زیادہ سفر نا کرنا بتایا گیا۔

میں نے اپنے قیام کے دوران محسوس کیا کہ پاکستان ٹیم کے چند ایک سینئر کھلا ڑیوں کے علاوہ سارے نوجوان کھلاڑی مجھ سے کترا رہے تھے اگر چہ میں نے ہمیشہ نوجوان کھلاڑیوں کا مقدمہ لڑا ہے۔ میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ شاید میرے بے لاگ تبصرے ہوئے ہوں گے یا ممکن ہے ان کو بورڈ کی طرف سے میڈیا سے دور رہنے کو کہا گیا ہو گا ۔

پاکستانی کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف کی خوداعتمادی اور غیرسنجیدگی کا ایک ثبوت یہ بھی نظر آیا کہ پاکستان کے کسی آفیشل یا کھلاڑی نے بھارت اور افغانستان کا میچ اسٹیدیم آکر نہیں دیکھا۔

شروع شروع میں مجھے لگا کہ پاکستان ٹیم پر اعتماد ہے اور لڑکے جیت کے لیے پر امید ہیں۔ لیکن پہلا میچ بھارت سے ہارنے کے بعد ان کے موڈ یکدم تبدیل ہوگئے ۔ شاید وہ ضرورت سے زیادہ خوداعتمادادی کا شکار تھے اورشکست کے بعد کچھ پریشان ہوگئے۔

پاکستانی کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف کی خوداعتمادی اور غیرسنجیدگی کا ایک ثبوت یہ بھی نظر آیا کہ پاکستان کے کسی آفیشل یا کھلاڑی نے بھارت اور افغانستان کا میچ اسٹیدیم آکر نہیں دیکھا۔یہ چیز میری سمجھ سے بالاتر تھی کیونکہ پاکستان کے کھلاڑیوں نے بھارت اور افغانستان کے کئی اسپنرز کوابھی تک نہیں کھیلا تھا اس لیے انہیں یہ میچ دیکھ کر ان کی خوبیوں اور خامیوں کو جانچنا چاہیے تھا۔ اور ایسا نہ کرنے کا نتیجہ دونوں ٹیموں کے خلاف میچ کے دوران نظر بھی آ گیا جب ہمارا ٹاپ آرڈر ان کی گوگلی اور اسپن کے سانے ناچتے دکھائی دیے۔

اس حوالے سے میں نے جیونیوز کے رپورٹر سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ بھارت اور افغانستان کے میچز کے دوران ہمارے کھلاڑی مفت کی دعوتیں اڑانے میں مصروف تھے۔ ان کو فکر نہیں تھی کہ دوسری ٹیمیں کیا کر رہی ہیں۔ شاید ان کو اپنے روابط بڑھانے سے فرصت ملتی تو وہ یہ سوچتے۔

شاید بورڈ ان کے آگے بے بس تھا اسی لیے ان کی ان حرکتوں کو مسلسل نظر انداز کر تا رہا۔

اوپر سے ماشا اللہ ٹیم کی سلیکشن ایسی تھی کہ ہم اپنے 'ہوم گراؤنڈ'کہلائےجانے والے ملک میں مذاق دکھائی دیے۔ تمام ٹیمیں ماہر اسپنرز کو ساتھ ٹورنامنٹ میں گئیں لیکن ہمیں اپنے تیز بولرز پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا ۔ اس پر تماشہ یہ کہ تیز بالرز کی سلیکشن پر بھی جھگڑا پڑ گیا کہ کسے کھلائیں اور کسے بٹھائیں ۔ ہم نے اپنے سب سے کامیاب بالر کو آخری میچ میں موقع دیا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔

ملاقات میں باقی سب تو ٹھیک رہا مگر سنیل کے ایک جملے نے مجھے پریشان کردیا 

سب زیادہ دل اس وقت دکھتا تھا جب میرے ارد گرد بیٹھے بھارتی، بنگلادیشی اور افغانی اور دیگر ممالک کے شائقین پاکستان ٹیم کا مذاق اڑاتے اور پھر مجھ سے پوچھتے کہ آپ کی ٹیم کو ہو کیاگیا؟ میرے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب نہیں تھا۔ ابتداءمیں تو میں نے ان کا دفاع کیا کہ اگلے میچ میں دیکھنا یہ کیسی کارکردگی دکھاتے ہیں لیکن ہر گزرتے دن کےساتھ میں لاجواب ہوتا گیااور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان ٹیم کو فائنل کھیلنے کی اہل بھی نہیں ہے ۔

قومی ٹیم کی کارکردگی کا شائقین پر یہ اثر پڑا کہ وہ دلبرداشتہ ہو کر اسٹیڈیم آنا ہی کم ہو گئے ۔مجھے سب سے زیادہ شائقین بنگلادیش اور بھارت کے نظر آئے جبکہ پاکستانی فین شاید 20 فیصد ہوتے ہوں گے۔

مزے کی بات یہ تھی کہ ہماری ٹیم کی بری کارکردگی کے باوجود، ٹیم منیجمنٹ کی طرف سے پیغام ملا کہ آپ ٹیم کی بہت زیادہ کھچائی کر رہے ہیں۔میں نے انہیں دوٹوک جواب دیا کہ میں ان کو اس پرفارمنس کے بعد ہار تو پہنا نہیں سکتا ۔ میرا کام جیو نیوز پر اپنا غیر جانبدارنہ تجزیہ پیش کرنا ہے نا کہ لڑکوں کی بری پرفارفنس کے باوجود ان کی تعریف کرنا۔

دبئی میں تمام ملکوں کے پرانے اور نئے کھلاڑیوں کامختلف ٹی وی چینلز پر میلہ لگا ہوا تھا ۔ بھارت ، پاکستان، بنگلادیش اور سری لنکا کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقا، برطانیہ اور آسٹریلین کھلاڑی بھی وہاں موجود تھے لیکن مجھے سب سے زیادہ خوشی سابق بھارتی کپتان سنیل گواسکر سے 20 برس بعد ملاقات کرکے ہوئی ۔

ملاقات میں باقی سب تو ٹھیک رہا مگر سنیل کے ایک جملے نے مجھے پریشان کردیا اور وہ پاکستان ٹیم کی کارکردگی پر نہیں بلکہ میری اپنی کارکردگی پر تھا۔سنیل نے مجھے دیکھتے ہی کہا " سکی ۔۔ تم موٹے ہو گئے ہو ۔۔۔ اور یہ غلط بات ہے"۔ اس لیے بھائی میں تو ابھی جا رہا ہوں دوڑ لگانے کیونکہ مجھے سنیل گواسکر سے پھر بھی ملنا ہےاس لیے آپ سے مزید باتیں بعد میں ہوں گی۔






جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔