بلاگ
Time 04 اکتوبر ، 2018

پاکستان ٹیم میں خوداعتمادی یا سازش؟

— رائٹرز فائل فوٹو

چیمپئنز ٹرافی میں فتح کے بعد ایسا لگا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالات بدل گئے ہیں اور ہم اب بلندیوں کے نئے افق کی جانب رواں دواں ہیں۔ مگر ایشیا کپ کی پرفارمنس سے یوں لگا کہ ہنوز دلی دور است!

وہیلڑکے ، وہی منیجمنٹ ، وہی کوچز اور اپنا ہوم گراؤنڈ مگر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے نا تجربہ کار کھلاڑیوں کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔

ہم کبھی کہتے تھے کہ بیٹنگ فیل ہو گئی، کبھی کہا کہ بالرز نے کام نہیں دکھایا اور فیلڈنگ تو ہمیشہ دعاؤں کے سہارے ہی چلتی تھی۔ مگر ایشیا کپ میں ٹیم کا آوے کا آوا ہی بگڑا دکھائی دیا۔ گیند نہ ہاتھ میں آئی ،نہ بلے پر اور نہ ہی وکٹوں پر۔ پہلے ہم سمجھے کہ شاید لڑکے گھبرا گئے مگر بعد میں سرگوشیوں سے پتا چلا کہ جیسے ٹیم میں بغاوت ہوگئی۔ کیا یہ پرفارمنس کسی پلان کا حصہ تھی ؟

ہم نے ہمیشہ سرفراز کو ایک نیچرل کپتان سمجھا اور یقیناً کپتان کبھی بنائے نہیں جاتے یہ صلاحیت قدرتی طور پر آپ کے اندر ہوتی ہے۔ جیسے کہ سرفراز سے پہلے، اظہر علی کو زبردستی کپتان بنانے کے کوشش کی گئی اور اس وقت کے چیئرمین شہریار صاحب اور کرکٹ کے کچھ پنڈتوں نے کہا کہ یہ35،30 میچوں کے بعد اچھا کپتان بن جائے گا۔ میں نے اس وقت بھی جیوپر اپنے پروگرام میں کہا تھا کہ کپتان کبھی بنائے نہیں جاتے ۔

مکی آرتھر نے پریس کانفرنس میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ٹیم میں اعتماد کا فقدان ہے ۔ لیکن مکی آرتھر سے بورڈ کو یہ پوچھنا چاہیے کہ کھلاڑیوں کو اعتماد کیا کوئی مخالف ٹیم آ کر دے گی یا یہ کام کوچ ہے ؟ یہ کام مکی آرتھر اور ان کے ساتھ موجود کوچنگ اسٹاف کی فوج کا ہے۔ وہ اسی کام کے پیسے لیتے ہیں۔

ایشیا کپ کی فارمنس کے بعد کچھ اہم حلقوں میں ہونے والی کچھ سرگوشیاں ہم تک بھی پہنچیں۔ ایک انتہائی اہم بات جو ہم تک پہنچی وہ یہ کہ مبینہ طور پر ٹیم میں کپتان بدلنے کی سازش ہو رہی ہے اور شاید ٹیم نے بغاوت کر دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک سینئر کھلاڑی اپنے کیریئر کے اختتام کے قریب کپتان بننے کی کوشش کر رہا ہے اور ٹیم کے باقی کھلاڑی اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔

یہ سرگوشیاں مجھے پاکستان کے روایتی حریف کے کیمپ سے سنا ئی دے رہی تھیں۔ اس پر میں نے کہا کہ کیا سرفراز بھی اس سازش کا حصہ ہے؟ کیوں کہ اگر سرفراز پرفارم کر رہا ہوتا تو کیا اس موضوع پر بات ہوتی؟ میرا ایک سوال یہ ہے کہ کیا سرفراز کو اس سازش کا علم ہو گیا تھا اور کیا اسی شدید ذہنی دباؤ میں آکر اس کے بلے اور گیند کا ملاپ ہی نہیں ہو کر دیا؟

یہ تو ایک سازش کی گونج تھی جو وہاں سنائی دی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹیم بہت زیادہ پر اعتماد تھی اور اس پر اعتمادی کا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹیم کی سلیکشن بہت ناقص تھی۔ اکثر ٹیم کی ہار کے بعد سلیکشن پر سوال اٹھتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ کرکٹ صرف اور صرف سیچوئیشن کا کھیل ہے یعنی گراونڈ کی سیچوئیشن ، موسم اور پچ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ انگلینڈ میں جیتنے کے بعد وہی ٹیم یا کمبی نیشن امارات میں نہیں استعمال کر سکتے۔ اگر انگلینڈ میں تیز بالر اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں تو وہ امارات کی مردہ وکٹوں پر اگلی سیریز میں کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ ہم نے ان ہی فاسٹ بالرز پر اعتماد کر کے امارات چلے گئے۔ جب کہ بھارت ،بنگلادیش ،سری لنکا اور یہاں تک کہ افغانستان تین تین اسپیشلسٹ اسپنرز کے ساتھ میدان میں اترے۔

ہم نے ہر میچ میں ایک نئے فاسٹ بالر کو آزمایا گیا ۔ جس بالر کے لیے ہم نے مسلسل جیو نیوز پر بات کی یعنی کے جنید خان ، انہیں آخری میچ دیا گیا جس میں اس نے چار کھلاڑی آوٹ کیے۔

سری لنکا کے مشہور اوپنر اور سابق کپتان سنت جے سوریا نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ کا کوچ ڈومیسٹک کرکٹ دیکھتا ہے؟

میرا سوال انضمام کی سلیکشن کمیٹی سے ہے کہ کیا آپ کو نہیں معلوم تھا کہ یو اے ای اور انگلینڈ کی پچوں میں کیا فرق ہے؟ کیا آپ اسپیشلسٹ اسپنرز کو نہیں بھیج سکتے تھے؟ بھارت نے صرف اپنے دو تیز بالز بھویشنر کمار اوربمرا کو کھلا کر ایشیا کپ جیت لیا ۔

کیا انضمام بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے حفیظ کو کیوں شامل نہیں کیا ، وہ بیٹنگ کے ساتھ ایک بہتر اسپنر بھی ہیں۔

ہم ٹیکنیکل کمیٹی میں تھے اور بھارت نے پہلے ہی میچ کے بعد پانڈیا کے زخمی ہوتے ہی جدیجا کو بلا لیا اس لیے کہ ان کے کوچ اور کپتان میں اتنی سمجھ تھی اور وہ پچ کو پڑھ سکتے تھے۔ انہوں نے چار اسپنرز کھلائے اور ماشا اللہ سے ہم نے اس کے مقابلے میں چار تیز بالر کھلائے۔ فرق صاف ظاہر تھا۔ اگرانضمام جیسا بڑاکھلاڑی اور مکی آرتھر جیسا کوچ یہ سب چیزیں نہیں سمجھا سکتا تو بہتر ہے کہ وہ مستعفی ہو جائے۔

سنا ہے کہ مکی آرتھر جنہوں نے صرف فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے وہ اپنی مرضی کی ٹیم سلیکٹ کرتے ہیں اور ہمارے تین سو سے زائد ایک روزہ میچ کھیلنے والے انضمام مکی آرتھر کے سامنے کچھ نہیں کہہ پاتے اور اپنی نوکری بچاتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں ۔

سری لنکا کے مشہور اوپنر اور سابق کپتان سنت جے سوریا نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ کا کوچ ڈومیسٹک کرکٹ دیکھتا ہے؟ کیا اس کو لڑکوں کے بارے میں معلوم ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ چھٹیوں میں وہ اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور آنے کے بعد ان ہی لڑکوں کو مانگتے ہیں جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ کھیل چکے ہیں۔ اس کی واضح مثال ٹیسٹ ٹیم کے 16 لڑکوں کی لسٹ ہے جس پر ہم بعد میں کبھی بات کریں گے۔

سنت جے سوریا نے یہ سوال اس وقت کیا جب اس نے پاکستان کو صرف ایک ہی اسپنر کھلاتے دیکھا۔ وہ حیران تھا اسی لیے اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی اسپنرنہیں ہے جو آپ ان مردہ پچوں پر ایسی ٹیم کھلا رہے ہیں۔

سلیکشن کے بعد اگر ہم ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کو دیکھیں تو ایک ہار یعنی بھارت کے خلاف پہلی ہار کے بعد وہ ایسے گرے کہ پھر اٹھ نہ سکے ۔ لڑکوں کے چہرے اتر چکے تھے اور ان کا شوق اور چنچل پن مر چکا تھا۔ میری روزانہ ان سے ناشتے پر ملاقات ہوتی تھی اور میں یہ تبدیلی واضح طور پر محسوس کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ تو حسن علی نے کھلاڑی کو آوٹ کرنے بعد اپنا جینریٹر بھی اسٹار نہیں کیا جو اس بات کی واضح نشانی تھی کہ وہ بالکل بھی پراعتماد نہیں تھے۔

مکی آرتھر نے پریس کانفرنس میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ٹیم میں اعتماد کا فقدان ہے ۔ لیکن مکی آرتھر سے بورڈ کو یہ پوچھنا چاہیے کہ کھلاڑیوں کو اعتماد کیا کوئی مخالف ٹیم آ کر دے گی یا یہ کام کوچ ہے؟ یہ کام مکی آرتھر اور ان کے ساتھ موجود کوچنگ اسٹاف کی فوج کا ہے۔ وہ اسی کام کے پیسے لیتے ہیں۔

ابتدا میں، میں نے ایک سازش کی بازگشت کا ذکر کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کتنی صداقت ہے لیکن آسٹریلیا کے خلاف سیریز ہم پر واضح کر دے گی کہ آیا کپتان سرفراز کے خلاف کوئی سازش واقعی ہو رہی ہے یا یہ افواہیں صرف افواہیں ہی ثابت ہوں گی۔

جاتے جاتے ایک اور بات، ہر وقت ٹیم کے ساتھ ڈریسنگ روم میں رہنے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ بیشتر نوجوان کھلاڑیوں کے ذہنوں میں صرف ایک بات ہے اور وہ اسی پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں کہ کس کھلاڑی کو لیگ میں سب سے مہنگا کانٹریکٹ ملا ہے یا ملے گا۔






جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔