بلاگ
Time 06 اکتوبر ، 2018

پاکستان اور آسٹریلیا کی خوبیاں اور خامیاں

— فائل فوٹو

جدید اور محدود اوورز کی کرکٹ کے بعد اب پاکستان ٹیم اصل اور روایتی کرکٹ یعنی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے جا رہی ہے۔ پاکستان آخری ٹیسٹ سیریز مئی 2018 میں انگلینڈ کے خلاف کھیلا جو ایک ایک سے برابر رہی۔ گو کہ پاکستان یہ سیریز جیت سکتا تھا مگر دوسرےٹیسٹ میں سرفراز کا ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ درست ثابت نہیں ہوا جب کہ پہلا ٹیسٹ ہمیں فاسٹ بولرز محمد عباس اور محمد عامر نے زبردست بولنگ کر کے جتوایا۔

میں یہاں بولنگ کا اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ ٹیسٹ میچ عموماً بولرز ہی جتواتے ہیں۔لیکن آسٹریلیا کے خلاف ہم اپنے ہوم گراونڈ پر کھیل رہے ہیں جہاں ممکن ہے ہمارے فاسٹ بولرز اس طرح کی گیند نہ کر سکیں جیسی انہوں نے انگلستان میں کی۔ ماضی میں یو اے ای میں زیادہ تر اسپن بولرز ہی ہیروز ثابت ہوئے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جائیں تو ماضی قریب میں سعید اجمل ہمارے ہیرو تھے۔ مگر ان کے ایکشن پر اعتراض اور پابندی لگنے کے بعد یاسر شاہ ہیرو بنے جنہوں نے نہ صرف ہمیں ہوم گرانڈ بلکہ بیرون ملک میں کامیابی دلوائی۔

آسٹریلیا کے خلاف بھی ہمارا نحصار ہمارے اسپن بولرز کی کارکردگی اور اس سے زیادہ فٹنس پر ہو گا۔ یاسر انگلیند کے دورے میں ان فٹ تھے اور اگروہ ابھی تک فٹ ثابت نہ ہوئے تو ہمارے لیے یہ سیریز بہت مشکل ہو گی۔

میں نے پچھلی مرتبہ بھی سلیکشن پر آواز اٹھائی جو بعد میں درست بھی ثابت ہوئی اور اس وقت بھی میری توجہ ٹیم کے کھلاڑیوں پر ہے جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مکی آرتھر صرف ان ہی لڑکوں پر توجہ دے رہے ہیں جو چار پانچ برسوں سے ٹیم کے ارد گرد ہیں۔ تو معذرت کے ساتھ انضمام الحق کی سلیکشن ٹیم نئے کھلاڑیوں کو سامنے لانے میں ناکام رہی ہے۔ جب ٹیم کا اعلان کیا گیا تو اس میں محمد حفیظ کا نام کہیں نہیں تھا اور یہ بات کافی واضح ہو چکی ہے کہ حفیظ سے کوچ مکی آرتھ کی نہیں بنتی۔ زمبابوے کے خلاف سیریز میں ہم دیکھا کہ حفیظ نے لھیلنے سے انکار کر دیا تھا ۔

ٹیسٹ ٹیم کے اعلان کے ایک ہفتے کے بعد سلیکشن کمیٹی اور کوچ مکی آرتھر کو حفیظ کی کارکردگی نے انہیں ٹیم میں شامل کرنے پر مجبور کر دیا ۔ حفیظ نے حال ہی میں قائداعظم ٹرافی میں ایک ہی اننگز میں ڈبل سنچری کرکے انضمام کومجبور کر دیا کہ وہ کوچ سے بات کریں اور ان کو ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل کریں۔

شان مسعود کے والد پاکستان کرکٹ بورڈ کے گورننگ بورڈ میں شامل تھے اس لیے وہ ہر دورے میں موجود ہوتے تھے۔ مگر جیسے ہی تبدیلی آئی تو ان کے والد کو فارغ کر دیا گیا اور شان مسعود جس نے ڈومیسٹک کرکٹ میں 1300 رن بنائے تھے ان کو بھی ٹیسٹ اسکواڈ سے فارغ کر دیا گیا۔

حفیظ کا اس لیے بھی اتوار کو پلینگ 11 میں شامل ہونا ضروری ہے کہ ان کا بولنگ ایکشن کلیئر کر دیا گیا ہے اور وہ اسپنر کے طور پر بھی آسٹریلیا کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

سیریز کے لیے ٹیم کو دیکھیں تو ایک ایکسٹرا وکٹ کیپر کو ٹیم میں ساتھ رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی سرفراز کو دباو میں رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں احساس دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس متبادل وکٹ کیپر محمد رضوان موجود ہیں۔ محمد رضوان پچھلے دو تین برسوں میں جب بھی موقع دیا گیا تو وہ بری طرح ناکام ہوئے جس کے بعد انہیں ڈراپ کر دیا گیا ۔اگرچہ سرفراز اپنے ساتھ کسی متبادل وکٹ کیپر کو رکھنا ہی نہیں چاہتے تھے مگر اپنی حالیہ کارکردگی کے بعد اس مرتبہ وہ یہ نہیں کر سکے۔ مجھے ٹیم میں دو وکٹ کیپروں کی سلیکشن پر اعتراض نہیں ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد رضوان کے علاوہ کوئی دوسرا وکٹ کیپر نہیں ہے جس کی ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی قابل ذکر ہو؟

اس کے علاوہ ہمیں ہر دورے کے دوران کچھ کھلاڑی ایسے نظر آتے ہیں جنہیں ٹیم میں شامل تو کر لیا جاتا ہے مگر ان کو کھلایا نہیں جاتا۔ ٹیم میں بلال آصف بھی ایسے ہی کھلاڑی ہیں ۔ وہ آف اسپنر ہیں لیکن ٹیم کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ان کو موقع نہیں دیا جاتا۔ آسٹریلیا کے خلاف بھی جب ان کی سلیکشن کی باری آئے گی تو کپتان کے پاس حفیظ کی موجودگی میں ان کو موقع دینا مشکل ہو گا اور کپتان سرفراز کسی آل راونڈر کوبلال پر ترجیح دینا پسند کریں گے ۔ ٹیم میں عثمان صلاح الدین بھی موجود ہیں جنہوں نے ڈومیسٹک سیزن میں آصف زاکر اور امام الحق کے ساتھ ساتھ کافی رن کیے مگرموقع ہر میچ میں صرف 'بھتیجے میاں ' کو ملا جنہوں نے یقیناً رن بھی کیے ۔اس کےبرعکس عثمان صلاح الدین کو ایک ٹیسٹ میچ کھلایا گیا جس میں ان کا زیادہ سے زیادہ اسکور 33 رہا۔ حارث سہیل بھی ایسے ہی کھلاڑی ہیں مکی آرتھر کے فیورٹ ہونے کی وجہ سے ٹیم کے ساتھ تو ضروررہتے ہیں مگر انہیں بھی فائنل 11 میں شامل نہیں کیا جاتا ۔

آسٹریلیا کے خلاف منتخب ٹیم میں چار اوپنگ بلے بناز ہیں ۔ اظہر علی، امام الحق ، حفیظ اور فخر زمان۔ لگتا یہ ہے کہ اظہر علی اور امام اوپن کریں اور حفیظ کو مڈل آرڈر میں بھی کھلایا جا سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی کہ ایک سینر کھلاڑی کو ٹیم میں بارہواں کھلاڑی بنا کر پانی پلانے پر لگا دیا جائے۔سلیکشن کے معیا ر کا اس سے اندازہ لگائیں کہ پچھلے دو سال سے شان مسعود پاکستان ٹیم کے لیے اوپن کر رہے تھے اور جب ان کو ٹیم میں شامل کیا گیا تو ان کے قائد اعظم ٹرافی میں صرف 400 کے کچھ زیادہ رن تھے۔ مگر ان کے والد پاکستان کرکٹ بورڈ کے گورننگ بورڈ میں شامل تھے اس لیے وہ ہر دورے میں موجود ہوتے تھے۔ مگر جیسے ہی تبدیلی آئی تو ان کے والد کو فارغ کر دیا گیا اور شان مسعود جس نے ڈومیسٹک کرکٹ میں 1300 رن بنائے تھے ان کو بھی ٹیسٹ اسکواڈ سے فارغ کر دیا گیا اور ایشیا کپ میں ان کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کے اچھے کھلاڑی ہیں لیکن ان کو ٹیسٹ اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا ۔ میرے خیال میں فخر زمان کی جگہ ان کو ٹیم میں شامل کیا جانا چاہیے تھا کیوں کہ فخر زمان ایشیا کپ میں بری طرح ناکام ہوئے تھے۔

پاکستانی بولنگ :

محمد عباس

عامر ٹیسٹ ٹیم سے باہر ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان کا گیند سوئنگ نہیں ہو رہا اور ذہنی طور پر وہ تھک چکے ہیں لہٰذہ ان کو آرام کروایا جا رہا ہے اس لیے آسٹریلیا کے خلاف محمد عباس ہمارے اٹیک کو لیڈ کریں گے۔ اگرچہ ان کو ایک روزہ کرکٹ میں بھی رکھا جا سکتا ہے مگر سلیکٹرز کی منطق ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

عباس کا ساتھ وہاب یا میر حمزہدیں گے ۔ سیریز میں جنید خان کو موقع دیا جا سکتا ہے لیکن لگتا ہے کہ جنید بھی مکی آرتھر کی گڈ بک میں نہیں ہیں۔ ایشیا کپ کے آخری میچ میں جنید نے چار کھلاڑیوں کو آوٹ کر کے ثابت کر دیا تھا کہ وہ ایک اچھے بولر ہیں لیکن ان کے ساتھ بھی زیادتی کی جارہی ہے۔

آسٹریلیا کے بولنگ کنسلٹنٹ سریدھارن شری رام جو کہ بھارتی انٹرنیشنل کرکٹر ہیں انہوں نے پاکستانی ٹیم کو دیکھتے ہوئے فوراً بھارت سے دو اسپنر پردیپ ساہو اور کے کے جیاس کو دبئی بلوا لیاہے جو کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو نیٹس میں اسپن کھیلنے کی پریکٹس کروا رہے ہیں۔

میر حمزہ ایک نئے نوجوان کھلاڑی ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کو موقع دیا جاتا ہے کہ نہیں لیکن میری رائے میں اگر ان کو ان مردہ وکٹوں پر نہ ہی کھلایا جائے تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔فہیم اشرف اگرچہ بہت تیز نہیں مگر ایک آل راونڈر کی حیثیت سے شاید اپنی جگہ بنا لیں ۔حسن علی کو ہو سکتا ہے کہ ان پچز پر گیند کرنا دشوار ہو جائے تو وہ بھی ایک سیاح کی طرح ٹیم کے ساتھ ہوں گے۔

اسپنرز پر نظر ڈالیں تو پاکستان بہت زیادہ یاسر شاہ پر انحصار کرے گا۔ ان کا ساتھ آف اسپنر بلال آصف دے سکتے ہیں اگر ان کو کھلایا گیا۔ شاداب دوسرے رائٹ آرم لیگ اسپنر ہیں مگر وہ ایک مین بولر کی طرح نہیں کھیل سکتے اور ان کی فٹنس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔اور اگر یاسر شاہ اپنی فٹنس برقرار نہیں رکھ سکے تو پاکستان ٹیم کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سلیکٹرز کو کسی لیفٹ آرم اسپنرمثلاً محمد اصغر کو ضرور ٹیم میں شامل کرنا چاہیے تھا مگر لگتا یہ ہے کہ سلیکٹرز اور کوچ ان دوسرے لڑکوں کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ۔

بیٹنگ:

بیٹنگ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ٹیم 7مین بیٹسمینوں کے ساتھ میدان میں اترے گی۔ جن میں میرے خیال سے اوپنر حفیظ اور امام ہوں گے۔ بابر ، اظہر ، اسد شفیق ، حارث سہیل اور سرفراز مڈل آرڈر کو مضبوط کریں گے۔ ان 7 میں سے امام ، حارث سہیل اور بابر نے ابھی تک ٹیسٹ کرکٹ میں سینچری اسکور نہیں کی۔ اظہر علی اوراسد شفیق نے ا یک سال پہلے ، سرفراز نے چار سال قبل جبکہ حفیظ نے آخری مرتبہ 2015 میں سینچری اسکور کی تھی۔ اگر ان کے علاوہ نئے لڑکوں کو کھلایا جائے تو ہماری بیٹنگ کمزور ہو جائے گی۔

آخر میں ایک چیز سمجھ نہیں آئی اسد شفیق پاکستان کی مین بلے باز ہیں مگر آسٹریلیا کے خلاف پریکٹس میچ میں اپنے ریگولر پیس اٹیک کو آرام دینے کے لیے ان سے 33 اوورز کروا لیے گئے جو نا مناسب بات ہے۔ اس کا ان کی فٹنس پر کیا اثر ہوا ہو گا ؟ کچھ معلوم نہیں۔

اس کے باوجود پاکستان ٹیم اس لحاظ سے بہتر پوزیشن میں ہو گی کہ ان کا مقابلہ ایک نئی اور نا تجربہ کار آسٹریلیا کی ٹیم سے ہو رہا ہے۔

آسٹریلیا کے کپتان ٹم پین اس طرح کی کنڈیشن کے لحاظ سے ناتجربہ کار ہیں ۔ آسٹریلیا کے اوپنرز ایرن فنچ اور ٹراوس ہیڈ کو ڈیبیو کروا سکتے ہیں کیوں کہ ان کے ریگولر اوپنر میتھیو رینشا سر میں چوٹ کے باعث شاید آرام کریں ۔ ان کی یہ چوٹ پاکستان اے ٹیم کے خلاف ایک پریکٹس میچ کے دوران لگی تھی۔

آسٹریلیا کی بیٹنگ ان کے تین تجربہ کار کھلاڑیوں پر انحصار کرے گی۔ ان میں پاکستان میں پیدا ہونے والے عثمان خواجہ اور مارش برادرز یعنی شون مارش اور مچل مارش شامل ہیں ۔ ان کے تیز بولر مچلز اسٹارٹ اور پیٹر سڈل تجربہ کار ہیں لیکن کیا وہ ان مردہ وکٹوں پر کامیاب ہو گے؟ یہ دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے پہلے ہی یہ کہہ دیا ہے کہ ہمیں پاکستان کی طرف سے اظہر علی سے بہت خطرہ ہے۔ آسٹریلیا کی فیلڈنگ اور فٹنس کے ساتھ ان کے اسپن بولر نیتھن لائن خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے پریکٹس میچ میں آٹھ کھلاڑیوں کو آوٹ کیا اور چالیس اوورز بھی کروائے۔ ان کا ساتھ دیں گے جان ہالینڈ جو بائیں ہاتھ سے اسپن گیند کرتے ہیں ۔

ایک اہم چیز جو کہ ہمارے کوچز کو بھی دیکھنی چاہیے کہ آسٹریلیا کے بولنگ کنسلٹنٹ سریدھارن شری رام جو کہ بھارتی انٹرنیشنل کرکٹر ہیں انہوں نے پاکستانی ٹیم کو دیکھتے ہوئے فوراً بھارت سے دو اسپنر پردیپ ساہو اور کے کے جیاس کو دبئی بلوا لیاہے جو کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو نیٹس میں اسپن کھیلنے کی پریکٹس کروا رہے ہیں۔

بہرحال اگر ناموں کو دیکھا جائے تو آسٹریلیا کی ٹیم کاغذ پر اتنی مضبوط نظر نہیں آتی اس لیے ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم اور اسپنرز اس ٹیم کو سیریز جیتنے نہیں دیں گے۔   




جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔