ایم کیو ایم رہنما علی رضا عابدی سپرد خاک، قتل کی 'تحقیقات میں پیشرفت'


کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کو آہوں اور سسکیوں کے درمیان سپردخاک کردیا گیا۔

ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق رکن علی رضا عابدی کو نامعلوم ملزمان نے گزشتہ روز ڈیفنس فیز 5 کے علاقے خیابان غازی میں ان کے گھر کے باہر نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں وہ دم توڑ گئے تھے۔

پولیس نے اس واقعے کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا تھا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ علی رضا عابدی کے قتل میں استعمال ہونے والا تیس بور کا پستول 10 دسمبر کو لیاقت آباد میں ایک نوجوان احتشام کے قتل بھی استعمال ہوا۔

ذرائع کے مطابق احتشام نام کا نوجوان جرائم پیشہ شخص عرفان کی سابقہ اہلیہ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ عرفان کرکٹ میچ پر جوا بھی چلاتا تھا، اس کے متحدہ سے بھی روابط تھے اور وہ مقتول احتشام کی گلی میں رہتا تھا۔

ذرئع کے مطابق عرفان آٹھ ماہ پہلے کھڈا مارکیٹ منتقل ہوا اور احتشام کے قتل میں عرفان کے ملوث ہونے کے شبہات ہیں لیکن عرفان واقعے کے بعد سے غائب ہے اور اطلاعات ہیں کہ وہ ایران چلا گیا ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں واقعات کی کڑیاں ملا کر تفتیش کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

قبل ازیں علی رضا عابدی کو امام بارگاہ یثرب میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد  ڈیفنس قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔

علی زیدی کے قتل کا مقدمہ درج 

دوسری جانب پولیس کے مطابق علی رضا عابدی کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جب کہ مقدمہ گزری تھانے میں ان کے والد سید اخلاق عابدی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

پولیس نے بتایا کہ مقدمہ نمبر 18/ 540 میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

حملے میں استعمال کیے گئے اسلحے کی فارنزک رپورٹ موصول

علی رضا عابدی کے قتل میں استعمال کیے گئے اسلحے کی فرانزک رپورٹ پولیس کو موصول ہوگئی، جس کے مطابق یہ اسلحہ ماضی میں بھی استعمال ہوا۔

انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کے مطابق اسی اسلحے سے 10 دسمبر کو لیاقت آباد میں احتشام نامی شخص کو قتل کیا گیا تھا۔

راجہ عمر خطاب کے مطابق احتشام کے قتل میں بھی 30 بور کا پستول استعمال ہوا تھا، جسے 3 گولیاں ماری گئی تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اہلخانہ کے مطابق احتشام کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں تھا۔

راجہ عمر خطاب کے مطابق علی رضا عابدی پر حملے میں دو پستول استعمال کیےگئے، حملہ آور کے دونوں ہاتھوں میں پستول تھے، جس پستول سے زیادہ گولیاں چلیں وہ احتشام کے قتل میں بھی استعمال ہوا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسرے پستول سے ایک گولی چلائی گئی، جو ابھی کسی قتل میں میچ نہیں ہوئی۔

پولیس حکام نے مزید بتایا کہ علی رضا عابدی کی گھر واپسی کا یہ وقت نہیں تھا، انہیں اپنی فیملی کو لے کر کہیں جانا تھا، اسی لیے شاید وہ جلدی گھر آئے۔

فائرنگ کرنے والوں کے چہرے یاد ہیں، دیکھ کر پہچان سکتا ہوں، والد سید اخلاق

علی رضا عابدی کے والد سید اخلاق کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فائرنگ کی آواز سنتے ہی دروازے کی طرف بھاگا تو گارڈ نے بتایا کہ فائرنگ ہوئی ہے اور اسلحہ مانگا۔

انہوں نے کہا کہ علی رضا عموماً اس وقت گھر نہیں آتے تھے لیکن کل بچوں کو ڈنر پر لے جانے کیلئے علی رضا جلدی آئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے ان لڑکوں کو بھاگتے دیکھا، وہ 22 یا 24 سال کے دو لڑکے تھے جن کے چہرے یاد ہیں اور دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔

سید اخلاق نے مزید بتایا کہ علی کو لیکر پی این ایس شفا گیا وہ علی کو آپریشن تھیٹر لے گئے، گردن کی گولی نے علی کی جان لے لی۔

علی رضا عابدی کے زیرِحراست گارڈ کا بیان

علی رضا عابدی کے قتل کے بعد پولیس نے ان کے گارڈ قدیر کو بھی حراست میں لیا۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ساؤتھ پیر محمد شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ گارڈ قدیر حملہ آوروں کی فائرنگ کے جواب میں فوری کارروائی کے بجائے گھر کے اندر چلا گیا اور علی رضا عابدی کے والد سے ملزمان پر جوابی فائرنگ کے لیے ہتھیار مانگا۔

گارڈ قدیر نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ وہ ایک مہینہ25 دن سے بنگلے پر ملازمت کر رہا تھا۔

اس کا کہنا ہے کہ اس کی ڈیوٹی شام سات سے صبح سات بجے تک ہوتی تھی۔ 'صاحب کی گاڑی دروازے پر رکی تو دروازہ کھولنے کے لیے اٹھا۔ بائیں ہاتھ میں گن تھی دائیں سے دروازہ کھولا۔ ابھی ایک حصہ ہی کھولا تھا کہ فائرنگ ہوئی۔'

گارڈ کے مطابق اس نے دروازہ چھوڑ کر گن لوڈ کرنے کی کوشش کی،ایک بار میں لوڈ نہ ہوئی تو دوبارہ کوشش کی لیکن گن لوڈ نہ ہوئی۔

گارڈ کا کہنا ہے کہ وہ جب باہر نکلا تو کوئی نظر نہیں آیا اور اس نے جب علی رضا عابدی کو دیکھا تو ان کی گردن سے خون نکل رہا تھا۔

ایس ایس پی پیر محمد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں دو تین مقامات پر ملزمان کی نشاندہی ہوئی ہے جبکہ اس حوالے سے فارنزک تحقیقات جاری ہیں کہ واقعے میں استعمال ہونے والا ہتھیار پہلے کبھی کسی واقعے میں استعمال ہوا یا نہیں۔

سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر

واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ علی رضا عابدی کی گاڑی جیسے ہی گھر کے دروازے پر رُکی، موٹر سائیکل پر تعاقب میں آنے والے دو ملزمان قریب آئے، پیچھے بیٹھے ملزم نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے علی رضا عابدی پر پے در پے گولیاں چلائیں اور فرار ہوگئے۔


علی رضا عابدی کوتشویشناک حالت میں قریبی اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ کچھ ہی دیر بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

اس افسوس ناک واقعے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح کراچی سمیت پورے ملک میں پھیل گئی، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری فوری موقع پر پہنچی اور شواہد اکٹھے کیے گئے۔

علی رضا عابدی کی میت پوسٹ مارٹم کے لیے جناح اسپتال لائی گئی جہاں ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ انہیں گردن اور سینے پر تین گولیاں لگیں۔

مزید خبریں :