17 جنوری ، 2019
اسلام آباد: پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی بچی امل عمر کے کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کروا دی، جس کے مطابق پولیس اور امن فاؤنڈیشن ایمبولینس سروس نے اپنی غیر ذمہ داری قبول کی تاہم کراچی کے نجی اسپتال نے اپنی ذمہ داری تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ بچی کی موت کی تاریخ اور وقت بھی تبدیل کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر مبینہ پولیس مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر موجود ایک گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔
رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ امل کی موت پولیس اہلکار کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی، دوسری جانب بچی کے والدین کا موقف تھا کہ اسپتال انتظامیہ نے بچی کو وقت پر طبی امداد نہیں دی تھی، جس کی وجہ سے وہ دم توڑ گئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے 18 ستمبر کو واقعے کا نوٹس لیا تھا اور 25 ستمبر کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران پولیس ٹریننگ اور قواعد میں ضروری ترامیم، پرائیویٹ اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج اور واقعے کے ذمہ داران کے تعین کے لیے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی تھی۔
کمیٹی میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ، بیرسٹر اعتزاز احسن، ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ، جسٹس ریٹائرڈ عارف خلجی، ایڈووکیٹ عمائمہ اور دیگر شامل تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آج امل عمر ہلاکت کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران بچی کی ہلاکت کے معاملے پر سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ جمع کروائی۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے رپورٹ جمع کرواتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ 'کمیٹی نے 4 زاویوں سے معاملے کو دیکھا ہے'۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق 'پولیس نے اپنی غیر ذمہ داری قبول کی، پولیس میں فائرنگ کی تربیت کا فقدان ہے اور تربیت کے بغیر ہی پولیس کو آٹومیٹک بھاری ہتھیار دیئے گئے'۔
رپورٹ کے مطابق امن فاؤنڈیشن ایمبولینس سروس نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے تاہم کراچی میں واقع نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
رپورٹ کے مطابق 'اسپتال نے زخمی امل کو اسپتال سے منتقلی کے لیے بنیادی سہولت نہیں دیں جبکہ کمیٹی میں بھی صاف جھوٹ بولا ہے'۔
رپورٹ کے مطابق 'اسپتال نے بچی کی موت کی تاریخ اور وقت بھی تبدیل کیا ہے، تاکہ یہ ثابت ہوکہ بچی اسپتال پہنچنے سے پہلے فوت ہوچکی تھی'۔
ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے مطابق 'سندھ ہیلتھ کمیشن نے بھی اسپتال کے حق میں رپورٹ دی، جو قابل افسوس ہے'۔
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا این ایم سی کو رپورٹ پر جواب داخل کرانے کا وقت دیا جائے'؟
جس پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ 'جی بالکل این ایم سی اسپتال سے جواب لے لیجئے'۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کراچی پولیس، سندھ ہیلتھ کمیشن، امن فاؤنڈیشن اور این ایم سی اسپتال سے انکوائری رپورٹ پر جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس کا بچی کے والدین سے مکالمہ
دوران سماعت چیف جسٹس نے بچی کے والدین سے سوال کیا کہ 'آپ کیس کی سماعت کراچی میں چاہتے ہیں یا اسلام آباد میں؟'
جس پر امل کی والدہ نے جواب دیا کہ 'بہتر ہے اس کیس کی سماعت اسلام آباد میں ہی ہو'۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہ 'میں معذرت چاہتا ہوں کہ امل کیس کو ختم نہیں کرسکا، جانتا ہوں کہ آپ کی کوشش اب امل کی طرح دوسرے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہے'۔
جس پر امل کی والدہ نے چیف جسٹس اور پورے بینچ کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے امل عمر کیس کی سماعت 10 روز کے لیے ملتوی کردی۔