06 فروری ، 2019
کراچی کے علاقے کلفٹن میں پھول جیسی کمسن بچی کو سمندر میں ڈبو کر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ماں کے ساتھ اس کے شوہر اور والد کو بھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ 4 فروری کی شام ڈیفنس فیز 8 میں فرحان شہید پارک کے قریب پیش آیا تھا، جب 28 سالہ شکیلہ راشد نے اپنی ڈھائی سالہ بیٹی انعم کو سمندر میں ڈبو دیا تھا، جس کی لاش گذشتہ روز دو دریا کے قریب سے ملی تھی۔
خاتون نے پولیس کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کے شوہر نے ایک ماہ قبل اسے بلاوجہ گھر سے نکال دیا تھا اور اس کے باپ نے بھی گھر میں جگہ نہ دی، وہ دربدر ہوگئی تھی، جس کی بنا پر بچی سے چھٹکارا پا کر خود بھی مرنا چاہتی تھی۔
پولیس ذرائع کے مطابق 28 سالہ خاتون کا اپنی بچی کو سمندر میں ڈبو کر قتل کرنا اگرچہ ان کا ذاتی فعل ہے تاہم وہ جن حالات و واقعات کے تحت یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوئی، اس امر کی بھی تحقیقات کرنا ضروری ہیں۔
پولیس کے مطابق ملزمہ شکیلہ کے شوہر راشد شاہ سے اس امر کی تفتیش ہوگی کہ شادی کے بعد اس نے اپنی بیوی اور بچی کو ایسا گھریلو ماحول کیوں فراہم نہیں کیا کہ وہ پرسکون زندگی گزارتے؟
پولیس ذرائع کے مطابق اس امر کی بھی تفتیش کی جائے گی کہ وہ کون سے حالات تھے جس کے تحت ایک پڑھی لکھی خاتون اپنی ہی پھول جیسی بچی کو ظالمانہ طریقے سے قتل کرنے پر مجبور ہوئی۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن ساؤتھ طارق دھاریجو کے مطابق اس الزام کو 'قتل بالسبب' کہا جاتا ہے جس پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 عائد ہوتی ہے۔
ایس ایس پی طارق دھاریجو کے مطابق ملزمہ اگر اپنے شوہر کے ہاتھوں تنگ تھی تو اس کے باپ نے اسے تحفظ فراہم کیوں نہیں کیا اور یہ کہ والدین ہونے کے ناطے انہوں نے اپنی بیٹی کی شکایات کے ازالے کے لیے کوئی کوشش کیوں نہیں کی؟
ایس ایچ او ساحل پولیس اسٹیشن سیدہ غزالہ کے مطابق خاتون کا شوہر راشد شاہ کراچی کے ایک بڑے نجی اسپتال میں ملازم ہے، اگرچہ وہ اپنے ذاتی گھر میں رہائش پذیر ہے، تاہم مہنگائی کے اس دور میں وہ بیوی اور بچی کو ان کے ذاتی اخراجات کے لیے محض 100 روپے ہفتہ دیتا تھا جو کبھی بچی کی فرمائش پر ساڑھے چار سو روپے ماہانہ تک چلے جاتے تھے۔
پولیس کے مطابق ملزمہ نے بیان دیا ہے کہ وہ کراچی کے چکا چوند ماحول میں ایک بچی کی خواہشات کو اس طرح کی تنگدستی میں دبا دبا کر انتہائی پریشان تھی۔
پولیس اس امر کی بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ ملزمہ شکیلہ بی بی اے پاس ہے۔ وہ اپنی گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے مبینہ طور پر ملازمت کرنا چاہتی تھی مگر اس کا شوہر اسے ملازمت بھی نہیں کرنے دیتا تھا۔
پولیس کے مطابق عام حالات میں اس کا اپنی بیوی کے ساتھ رویہ کیا ہوگا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بچی کی موت کی اطلاع ملنے کے بعد تھانے پہنچ کر راشد شاہ نے زیر حراست بیوی پر تشدد کرنا شروع کردیا اور وہ اسے بار بار کوس رہا تھا کہ 'بچی کو مار دیا یہ منحوس خود کیوں نہیں مری؟'، تاہم پولیس اہلکاروں نے اسے اس امر سے روکا۔
پولیس کے مطابق ملزمہ کے شوہر کے رویے کی بنا پر بچی کی لاش باپ کی بجائے بچی کے تایا کے حوالے کی گئی۔
واضح رہے کہ بچی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ملزمہ شکیلہ پولیس ریمانڈ پر ہے، جس سے تفتیش جاری ہے۔