بلاگ
Time 04 مارچ ، 2019

سابق صدر کے خاص الخاص لوگ

— سابق صدر آصف علی زرداری

سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی گرفتاری کو 2013 سے شروع کیے گئے آپریشن کے ناتمام ایجنڈے کے خاتمے کا آغاز کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا ۔ کراچی آپریشن کا مقصد دہشت گردوں کا صفایا،سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ کا خاتمہ،دہشت گردوں کی مالی معاونت اور بدعنوانی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھالیکن سابق صدر آصف زرداری کے اہم اور خاص الخاص ساتھیوں اور انتہائی قابل اعتماد دوستوں کی پے در پے گرفتاریوں کے بعد اب لگتا یہ ہے کہ پس پشت پڑے کراچی آپریشن کا خاتمہ ایک "طاقتور ترین شخصیت " کی گرفتاری پر ہی ہو گا۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ 2018 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی دہشت گردی، عسکریت پسندی اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کی مہم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ بلکہ اس کے برعکس گزشتہ 6 مہینوں کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے کےبعد وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے اور وفاقی احتساب بیورو ’ نیب‘ مزید طاقتور ہو کر ابھرے اور انہوں نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو وسعت دی۔

ایک ایسے وقت جب سابق صدر آصف علی زرداری کے تقریباً تمام اہم ترین ساتھی مشکلات کا شکار ہیں ،آصف علی زرداری نے پھر یہ اعلان کیا کہ جیل ان کا دوسرا گھر ہے۔ یاد رہے کہ کبھی ان کا پہلا گھر وزیراعظم ہاؤس اور بعد میں ایوان صدر تھا۔ اب جب کہ ان کے پہلے گھر جانے کا امکان نہیں ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنے دوسرے گھر چلے جائیں اور حالات و واقعات بھی اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس صورت حال میں کیا رد عمل دیتی ہے کیوں کہ ایک طرف وہ قومی اسمبلی کے ساتھ پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں میں احتجاج کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں تو دوسری طرف ان کے پاس سیاسی افراتفری پھیلانے کا ہتھیار بھی ہے۔

لیکن حالات کچھ بھی رخ اختیار کر لیں وزیراعظم عمران خان کو ان کے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے خلاف سخت ایکشن کے بیانیے سے پیچھے ہٹانا آسان نہیں ہو گا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی خان صاحب کے نزدیکی ساتھیوں کے خلاف کارروائیاں بھی ان کو اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکیں گی کیوں کہ وہ اپنے بیانیے کی راہ میں اپنے ساتھیوں کو قربان کرنے سے بھی نہیں گھبرائیں گے ۔

 اے پی سی کے اس غیر معمولی اجلاس میں سندھ حکومت کے خلاف "الزامات کی فہرست " چارج شیٹ کا سن کر آصف علی زرداری، اس وقت کے وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ اور وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ حیران رہ گئے۔

سابق صدر کے قریبی دوست اور انتہائی خاص آدمی اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی اسلام آباد میں نیب کے ہاتھوں گرفتاری نے سب کو حیران کر دیا ۔ آغا سراج کو 2008 میں درج مالی حیثیت سے زیادہ اثاثے بنانے کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس گرفتاری سے ایسا لگتا ہے کہ یہ 2013 کے کراچی آپریشن ہی کا تسلسل ہے، جس کے دوران زرداری صاحب کے اہم ساتھیوں ڈاکٹر عاصم حسین، منظور کاکا، نثار مورائی اور پھر شرجیل انعام میمن کے خلاف کارروائی کی گئی۔

نیب اور ایف آئی اے نے پہلی بارنواز شریف کے دور حکومت میں 2015 میں پوری قوت سے کارروائیوں کا آغاز ہوتے ہی میڈیا میں اربوں روپے کے سراغ لگانے کے دعوؤں کی خبریں شہ سرخیوں میں شائع ہونے لگیں۔ لیکن وہ دولت غیر قانونی ذرائع سے بیرون ملک بھیجنے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی کہانیاں تھیں۔

تاہم ان کارروائیوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان خلیج کو یک دم بڑھایا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب حکومت سندھ نے رینجرز کے اختیارات میں اضافہ نہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔

بعد ازاں سابق صدر کے دوست اور قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین کو نیب نے گرفتار کر لیا۔ ڈاکٹر عاصم پر 460 ارب روپے خرد برد کرنے اور دہشت گردوں کا علاج کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ یہ گرفتاری اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زردراری کے تعلقات کے خاتمے کی وجہ بنی۔

گزشتہ دور حکومت میں ہی نیب نے اومنی گروپ ، انور مجید اور دیگرکے خلاف کارروائی کا آغاز کیا اور 2017 میں انور مجید کے دفتر اور پھر گھر پر چھاپہ مارا گیا۔

پھر پاکستان کی اہم خفیہ ایجنسی نے آصف زرداری کے تین انتہائی قریبی ساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا ۔ ان افراد میں سے ایک کو اسلام آباد اور دو کو سندھ سے حراست میں لے کے چند دن تحویل میں بھی رکھا گیا۔

یہ کارروائی نواز- زرداری تعلقات کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی اور اس واقعے نے ان دونوں رہنماؤں کے درمیان نہ صرف سیاسی بلکہ ذاتی تعلقات کا بھی خاتمہ کر دیا۔ تاہم وزیراعظم میاں نواز شریف اس معاملے سے لا تعلقی ظاہر کرتے رہے اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کو پیپلز پارٹی کے خلاف حد سے آگے جانے سے منع کرتے رہے ۔

 آغا سراج درانی کی گرفتاری پیپلزپارٹی کی قیادت کے لیے کسی اچھنبے سے کم نہیں تھی ۔

اس کے علاوہ جعلی بینک اکاؤنٹ کا ایک بڑا کیس بھی 2013 کے کراچی آپریشن کے دوران سامنے آیا جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے )کو بے نامی بینک اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا کہا۔

اس سے پہلے ایف آئی اے حکام نے رینجرز کے ساتھ کراچی میں" سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی "کے دفتر پر چھاپہ مار ا اور 16000 کے لگ بھگ فائلیں لے گئے۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک ٹرک لائے تھے۔ بعد میں ان فائلوں میں سے بیشتر نیب حکام کے حوالے کر دی گئیں تھیں۔ یہ کارروائی کراچی میں قیمتی ترین زمینوں کی "چائنہ کٹنگ" کر کے اپنے من پسند افراد کو اونے پونے داموں دیے جانے اور زمینوں کے غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ تاہم تحقیقات کے دوران سابق صدر کا متعمد خاص اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا سربراہ منظور کاکا ملک سے فرار ہو گیا۔

منظور کاکا کے فرار کے بعد انسداد دہشت گردی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں نے "دہشت گردوں کی مالی معاونت" کرنے والوں اور ملکی دولت غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کرنے والوں کے خلاف اپنی کارروائیاں مزید تیز کر دیں۔ان اداروں نے کراچی میں ہی فشریز کے دفتر پر بھی چھاپہ کار کر آصف زرداری کے خاص آدمی اور فشریز کو آپریٹو سوسائٹی کے کرتا دھرتا نثار مورائی کو گرفتار کر لیا۔

ان کارروائیوں کے دوران 2015 ء میں پہلی بار اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلی سطح کی آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس منقعد ہوا۔ اجلاس میں دیگر رہنماؤں کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، انٹیلی جنس چیف لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر ، ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے شرکت کی۔ اے پی سی کے اس غیر معمولی اجلاس میں سندھ حکومت کے خلاف "الزامات کی فہرست " چارج شیٹ کا سن کر آصف علی زرداری، اس وقت کے وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ اور وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ حیران رہ گئے۔

اس کے باوجود آغا سراج درانی کی گرفتاری پیپلزپارٹی کی قیادت کے لیے کسی اچھنبے سے کم نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ سپریم کورٹ سے نظر ثانی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری ، ان کی بہن فریال تالپور اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے خلاف 'جعلی بینک اکاؤنٹ کیس' میں گرفتاری یا کارروائی کی توقع کر رہے تھے لیکن نیب نے اسلام آباد سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو گرفتار کر لیا ۔

اس ساری صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی یا سابق صدر آصف علی زرداری سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے یا ملک کی تمام اسمبلیوں سے اپنے ارکان کے مستعفی ہونے کا خطرہ مول نہیں لیں گے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا مطلب ریاست کے بچھائے جال میں پھنسنے کے مترادف ہوگا ۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سابق صدر کے مزید قریبی ساتھیوں کی گرفتاری کے ساتھ کچھ دلچسپ پیش رفت بھی ہو سکتی ہے ۔

لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس اہم ترین اور کلیدی شخصیت کوگرفتار کیا جا ئے گا یا نہیں؟ مجھے ایک انتہائی اہم اور قابل اعتماد شخصیت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ریاستی ادارے اس اہم ترین گرفتاری کے معاملے میں کوئی "نو بال " نہیں کرنا چاہتے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔