17 مارچ ، 2019
متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں 14 فروری سے شروع ہونے والا پی ایس ایل کا سفر دبئی، ابو ظہبی اور شارجہ سے ہوتا ہوا روشنیوں کے شہر کراچی میں تمام تر رعنائیوں اور کامیابیوں کے ساتھ اختتام پزیر ہو گیا ہے۔
پی ایس ایل کا ٹائٹل کون جیتا کون ہارا اس سے قطع نظر فائنل شروع ہونے سے قبل ہی 33 ہزار پُر جوش اور کرکٹ کی محبت میں گرفتار تماشائیوں سے کھچا کچھ بھرا نیشنل اسٹیڈیم دنیا کے لیے واضح پیغام ہے کہ پاکستان ناصرف ایک پُرامن ملک ہے بلکہ یہاں کے باسی کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ بھی رکھتے ہیں۔
پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد پر جہاں پی سی بی، حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی خدمات قابل قدر ہیں وہیں اہلیان کراچی کی قربانیاں اور شائقین کرکٹ کی حمایت بھی قابل ستائش ہے۔
پاکستان میں ہونے والے پی ایس ایل کے 8 میچز کے دوران کراچی کے شہریوں کو غیر ملکی کھلاڑیوں کی سیکیورٹی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن شہر قائد کے باسیوں نے پاکستان کی عزت و وقار کی خاطر اور ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے لیے ان مشکلات کو وطن عزیز کی عزت کا مسئلہ جان کر ہنسی خوشی سہہ لیا۔
وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین پی سی بی اگلے سال پورا پی ایس ایل پاکستان میں کرانے کا اعلان کر چکے ہیں اور جیسے جیسے پی ایس ایل پاکستان منتقل ہو رہا ہے تماشائیوں کی انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
انتہائی مشکل حالات میں پاکستان آنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں بالخصوص ڈیرن سیمی، کیرون پولارڈ، شین واٹسن، لیوک رونکی، رلی روسو، ڈیوائن براوو نے پی ایس ایل کی رونق بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، ان کھلاڑیوں کی عزت افزائی نہ کرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہو گی کیونکہ غیر ملکی کھلاڑیوں نے مشکل حالات میں ناصرف پاکستان آنے کا فیصلہ کیا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کیا۔
غیر ملکی کھلاڑیوں، کوچز، کمنٹیٹرز اور ٹیم اسٹاف نے نا صرف پاکستان کی مہمان نوازی کو سراہا بلکہ کراچی کی سڑکوں پر بغیر پروٹوکول کے گھوم کر پاکستان اور امن کے دشمنوں کو پیغام دیا کہ آپ کبھی بھی اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
2009 میں پیش آنے والے دلخراش واقعے کے بعد پاکستان پر بند ہونے والے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے اب آہستہ آہستہ کھلتے جا رہے ہیں اور امید ہے کہ بہت جلد پاکستان کے میدان ایک بار پھر بین الاقوامی میچز کی میزبانی کر رہے ہوں گے۔
آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیو رچرڈسن اور سیکیورٹی ماہرین کی جانب سے پاکستان کے انتظامات پر اطمینان کا اظہار بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان بین الاقوامی کرکٹ کی جلد از جلد بحالی کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔