میٹرک بورڈ کا ایک اشتہار

کہتے ہیں میٹرک کے امتحانات پاکستان کی نوجوان نسل کے تعلیمی میدان میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہائی اسکول کے طلباء اس مرحلے پر پہنچ کر اپنے تعلیمی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آئندہ انہیں کالج اور یونی ورسٹی جاکر سائنس کے میدان میں اپنا اور ملک کا نام روشن کرنا ہے یا معاشیات پڑھ کر اقتصادی طور پر کمزور پاکستان کی اصلاح میں اپنا حصہ بٹانا ہے۔ 

یہ ہی نہیں بلکہ میٹرک کی سند ہی وہ دستاویز ہے جس میں ان کی تاریخ پیدائش اور درست نام بھی درج کیا جاتا ہے اور یہی لکھا گویا پتھر پر لکیر کا کام دیتا ہے۔

کراچی میں ہر سال لاکھوں بچے میٹرک کا امتحان دیتے ہیں ، اساتذہ اور ننھے طالب علم سارا سال محنت کرتے ہیں، شہر میں دو شفٹوں میں سیکڑوں امتحانی مراکز بھی قائم کیے جاتے ہیں۔ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی ان امتحانات کے انعقاد کے لیے خصوصی انتظامات کرتا ہےتاکہ مستقبل کے معمار اپنی زندگی کے پہلے اہم ترین بورڈ کے امتحانات دے سکیں۔

ایسے میں 31 مارچ 2019 بروز اتوار کے روزنامہ جنگ میں ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کی جانب سے شائع ہونے والا اشتہار اپنی جگہ آپ ایک مضحکہ خیز دستاویز ہے۔ مذکورہ اشتہار میں طلبہ، طلباء اور طالبات جیسے عام الفاظ کا جس طرح انتہائی پھکڑ پن سے غلط استعمال کیا گیا ہے اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ نہ صرف اس اشتہار کی عبارت تحریر کرنے والے بلکہ بورڈ کے چیئرمین، سیکریٹری اور ناظم امتحانات جیسے لال بھجکڑوں (بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی) کو ہی سب سے پہلے میٹرک کا امتحان پاس کی ضرورت ہے اور قوی امید ہے کہ اس اشتہار جیسا اردو کا پرچہ حل کرنے کی صورت میں یہ تینوں قابل شخصیات انتہائی اعلیٰ نمبروں سے فیل ہوجائیں گی، شرط ہے کہ کاپی جانچنے والا تھوڑی بہت اردو جانتا ہو۔

موقر روزنامے میں شائع اس اشتہار کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بورڈ حکام طلبہ، طلباء اور طالبات جیسے الفاظ کے معنی سے یکسر ناواقف ہیں۔

معروف شاعر رئیس امروہوی مرحوم نے 1972 میں سندھ حکومت کے لسانی بل کے خلاف ایک معرکتہ الارا نظم، اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے، لکھی تھی لیکن ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے اشتہار نے حقیقتاً قومی زبان کی رسم قل ادا کر ڈالی ہے۔ ان لله وانا اليه راجعون


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔