بلاگ
Time 17 اپریل ، 2019

پاکستانیو! اِس چینی کہاوت سے ہی سیکھ لو!

— 

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں — بی ای، بی کام ، ایم کام ، بی بی اے ، ایم بی اے، انجینئرنگ کے سیکڑوں شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اور اس کے علاوہ چار چار سال تک کلاس رومز میں GP کے لیےخوار ہوتے لڑکے لڑکیاں کونسا تیر مار رہے ہیں؟ آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر " ڈگری شدہ " انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ یہ تمام ڈگری شدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک معصوم سی نوکری ہے اور بس۔

ٹیوٹا ، ڈاہٹسو ، ڈاٹسن ، ہینو ، ہونڈا ،سوزوکی ، کاواساکی ، لیکسس ، مزدا ، مٹسوبشی ، نسان ، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کی ہیں جبکہ شیورلیٹ ، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے ۔ آپ اندازہ کریں اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہیں ؟ آئی – ٹی اور الیکٹرونکس مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ جاپان کے پاس سے آتا ہے ۔

ایل جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے۔2014 میں سام سنگ کا ریوینیو 305 بلین ڈالرز تھا ۔ " ایسر " لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے جب کہ ویتنام جیسا ملک بھی " ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن " کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے ۔ محض ہوا ، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے اور کیلیفورنیا میں تعمیر ہونے والا اسپتال بھی چین سے اپنے آلات منگوا رہا ہے۔ خدا کو یاد کرنے کے لیے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ ماننے والوں سے خریدنے پر مجبور ہیں۔

دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبر پر فن لینڈ، دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے ۔ انھوں نے اپنی نئی نسل کو "ڈگریوں " کے پیچھے بھگانے کے بجائے انھیں " ٹیکنیکل " کرنا شروع کردیا ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی ممالک میں نظر آئیں گے۔

وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اس وقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں گزارتا ہے باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی – ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گزارتے ہیں ۔

دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔

ہم اسقدر "وژنری " ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر ہر سال 200 ارب روپے خرچ کررہے ہیں لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں ۔ آپ ہمارے " وژنری پن " کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی – پیک کے انتظار میں صرف اس لیے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائیں گی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائیں گے۔اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔

آپ فلپائن کی مثال لے لیں ۔ فلپائن نے پورے ملک میں " ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی " کے شعبے کو ترقی دی ہے ۔اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسسز کروائے ہیں اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے ۔ حتی کے ہمارا دشمن بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے ۔

آئی – ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں جب کہ آپ کو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز ، گرلز ، ویٹرز اور ویٹریسسز نظر آتے ہیں ۔ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں دس دس گنا زیادہ ہوتی ہیں اور دوسری طرف لے دے کر ایک " مری " ہی ہمارے لیے ناسور بن چکا ہے ۔جہاں کے لوگوں کو سیاحوں کی عزت تک کرنا نہیں آتی ہے۔

چینی کہاوت ہے کہ " اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھا دو "۔ چینیوں کو یہ بات سمجھ آگئی۔ کاش ہمیں بھی آجائے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ " ہنر مند آدمی کبھی بھوکا نہیں رہتا۔ "۔ خدارا ! ملک میں " ڈگری زدہ " لوگوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند پیدا کیجیے ۔ دنیا کے اتنے بڑے " ہیومن ریسورس " کی اس طرح بے قدری کا جو انجام ہونا تھا وہ ہمارے سامنے ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔