کھیل
Time 19 اپریل ، 2019

سمندر کے کھلاڑی

عاکف راج اور ان کی ٹیم مچھلیاں پکڑے کھڑی ہے۔ فوٹو: جیو نیوز

کراچی کے ساحل سمندر کو قدرت نے بھرپور نعمتوں اور ایڈونچر سے نوازا ہے، کورنگی کریک کے یارڈ کلب سے جیو کی صحافی ٹیم نے کھلے سمندر میں فری ڈائیورز کے ساتھ گہرے سمندر میں جانے کا سفر باندھا۔

اس سفر میں ہمارے ساتھ فری ڈائیونگ اسپئیر فشنگ کے مشہور ڈائیور عاکف راج، احمد معمور، علی داد، حسن اریب، رضوان گیلانی اور سید یاسین بھی شامل تھے۔

ہفتہ کی صبح طلوع ہو رہی تھی، ہم اپنی کیمرہ ٹیم اور سازوسامان کے ساتھ اسپیڈ بوٹ پر سوار ہوئے، اسپیڈ بوٹ پر اپنا بوریا بستر سمیٹنے کے بعد بوٹ کے صرف اسٹارٹ ہونے کی دیر تھی کہ پھر کشتی نے فراٹے بھرے نظارہ بھی بدلتا گیا، جیسے جیسے سمندر گہرا ہوتا گیا دلچسبی بھی بڑھتی چلی گئی، چھلانگیں مارتی اسپیڈ بوٹ نے چند ہی لمحوں میں پورا حلیہ بدل دیا، کئی یادیں لہروں کی طرح دل سے ٹکراتی رہیں۔

پہلی مرتبہ اسپیڈ بوٹ پر بیٹھنے کی وجہ سے ہم کبھی ادھر تو کبھی ادھر ڈولتے رہے پھر بوٹ کیپٹن احمد معمور کو رحم آیا اور انہوں نے بوٹ کی رفتار کو آہستی کیا اور ہم نے مطلوبہ فاصلہ ایک گھنٹہ 10 منٹ میں طے کرلیا۔

ہماری پہلی منزل بلوچستان کا علاقہ گڈانی تھا جس کے کچیانی کے ساحل پر ہم نے ڈیرہ ڈالا، بوٹ کا انجن خواب خرگوش میں چلا گیا ہم اسپیڈ بوٹ پر گہرے سمندر میں سکوت کے جھولے جھولتے رہے اور ڈائیورز مچھلیوں کا شکار۔

کچیانی بیچ پر مچھلیوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے وہاں ڈائیورز کو کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی انسٹرکٹر عاکف راج نے ایک دو مچھلیوں کا شکار کرنے کے بعد جگہ تبدیل کرنے کا ارادہ کیا۔

 ڈائیور عاکف راج پکڑی ہوئی مچھلی دکھا رہے ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز

سمندر میں موجود مچھلیاں اپنی جگہ تبدیل کرتی رہتی ہیں، ایسے موقع پر ڈائیورز نے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور جی پی ایس کے ذریعے وہ جگہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے جہاں مچھلیوں کا ٹھکانا تھا۔

اور پھر شکاریوں نے مچھلیوں پر شب خون مارا مگر فری ڈائیونگ کے ذریعے مچھلیوں کا شکار آسان کام نہیں، اس کھیل میں بڑی مہارت چاہیے ہوتی ہے، کراچی کے عاکف راج اور ان کی ٹیم بغیر آکسیجن سلینڈر کے سمندر کی تہہ میں چلے گئے اور ایک دم سے بڑی بڑی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا، وہ باآسانی مچھلیوں کو لے کے باہر آجاتے۔

یہ نظارہ میرے لئے نیا تھا میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ 14 کلو وزنی مچھلی عاکف راج اپنے ہاتھ میں اٹھائے لا رہے ہیں، وہ مشکل سے مشکل ہدف کو 2 سے تین منٹ میں شکار کرلیتے۔

یہ ان کی ول پاور تھی جس کے بھروسے پر وہ ایسا کر پاتے نہ تو ان کے پاس کوئی آکسیجن سلینڈر اور نہ ہی کوئی سکوبہ گئیر ہوتا ہے، وہ ایک سانس بھر کے گہرے سمندر میں غوطہ لگا لیتے اور دراصل اس ڈبکی لگانے کو ہی فری ڈائیونگ کہتے ہیں، یہ ڈائیورز اسپئر گن کے ذریعے مچھلیوں کا شکار بڑی مہارت سے کر لیتے ہیں بلکہ ایک تیر سے دو شکار بھی ان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

عاکف راج سانس روک کر سمندر کی گہرائی میں 100 میٹر تک چلے جاتے ہیں اور ڈھائی سے تین منٹ میں شکار کرکے واپس آجاتے ہیں، عاکف راج نے یہ مہارت 5 سال کی بھرپور محنت کے بعد حاصل کی ہے، اب وہ نفسیاتی، جسمانی اور دل کی دھڑکن کو سست رکھنے پر باآسانی قابو پا لیتے ہیں۔

دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ بھوک نے سر اٹھانا شروع کر دیا، پھر کیا جو مچھلیاں ہاتھ تھیں انہیں فرائی کرنا شروع کر دیا۔

ماہر ڈائیورز سے بات چیت کے بعد اس بات کا پتا چلا کہ کراچی کے سمندر پر بڑھتی آلودگی نے آبی حیات کو شدید نقصان پہنچایا ہے، ہمارا پھینکا ہوا ایک پلاسٹک کا تھیلا کئی سالوں تک سمندر میں رہتا ہے اور وہ مچھلیوں کے نقصان کا سبب بنتا ہے، اگر انتظامیہ ساحل پر موجود تفریحی سہولیات اور سمندر کی صفائی کا کوئی خاص اہتمام کرے تو بین الاقوامی سیاحوں کیلئے بہترین پکنک پوائنٹس بھی بن سکتے ہیں، افسوس ہوتا ہے کہ قدرتی بندگاہ اور وسیع و عریض سمندر کا مسلسل انتظامی استحصال ہو رہا ہے۔

جس سمندر میں مچھلیوں کا بسیرا ہونا چاہیے وہاں آلودگی کی وجہ سے رونقیں ماند پڑی ہوئی ہیں، پورا دن سمندر پر گزارنے پر ہم نے بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کیا، بدلتی ہوئے لمحات اور ڈائیورز کے ایکشن نے دل موہ لیا۔

اگر بین الاقوامی سیاح یہاں کا رخ کریں تو ساحل سمندر کی رونق بھی بڑھے گی اور ان ڈائیورز کا بھی بھلا ہو گا۔

مزید خبریں :