وزن کم کرنے کا نسخہ

— 

جن افراد کا وزن بڑھ جاتا ہے وہ خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ وزن کم کرنا اور منے کا نام رکھانا آسان کام نہیں۔ یار لوگوں نے وزن کم کرنے کے بہانے اسے کمائی کا دھندہ بنا لیا ہے۔ وہ بھانت بھانت کے نسخے پیش کرتے ہیں نسخہ کارگر ہو یا نہ ہو مگر بندے کے پاس رقم کا ہونا ضروری ہے۔

لیکن اب خوش خبری ہے ان تمام افراد کو جو رقم خرچ کیے بغیر اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں۔ جی ہاں، حاضر خدمت ہے اب ایک ایسا جدید سائنسی نسخہ جس پر آپ کا ایک دھیلا (یہ دھیلا وہ نہیں جس کا ذکر شہباز شریف کرتے ہیں) بھی خرچ نہیں ہو گا۔ تو نسخہ نوٹ فرما لیں؛

سائنس دانوں نے جدید تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ محبوب کی جدائی میں رونے سے وزن کم ہوتا ہے اور دل کو سکون ملتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ رونے کے لیے بہترین وقت شام سات بجے سے رات دس بجے تک ہے۔ تو روئیں اور دل کی بھڑاس نکالیں۔ وزن خود بخود کم ہو جائے گا یعنی نہ ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا ہی چوکھا۔

اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ وہ موٹی لڑکیاں جن کی شادی موٹاپے کی وجہ سے رکی ہوئی ہے انہیں ہمارے دوست حکیم شرارتی نے مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک ناکام محبت کر لیں اور محبوب سے جدا ہو کر رو رو کے اپنا برا حال کر لیں تا کہ ان کا وزن تیزی سے کم ہو اور وہ دل کش دکھائی دینے لگیں۔  دیکھیے فی زمانہ ہر شخص مصروف دکھائی دیتا ہے، تصور جاناں کرکے بیٹھنے کے لیے دگنی فرصت چاہیے جو مرزا غالب کو بھی میسر نہیں تھی وہ خود فرماتے ہیں کہ

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن

بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے 

محبوب کی جدائی انسان کو کیا کچھ عطا کرتی ہے یہ اب بھی تحقیق طلب مسئلہ ہے ہمارے سماج میں اگر ایسا ہو جائے تو عموماً لوگ محض شاعری کرنے پر اکتفا کرتے ہیں لیکن محبوب کی جدائی میں اشعار کہنے سے وزن تو کم نہیں ہوتا لہذا ایسے لوگوں کو حکیم شرارتی کا مشورہ ہے کہ وہ فی الحال شاعری ترک کر دیں اور رونے پر توجہ دیں تاکہ ان کا وزن کم ہو۔ میر تقی میر کی مثال لے لیجیے وہ اسمارٹ انسان تھے موٹاپا ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کو وہ ہر وقت روتے رہتے تھے اور اتنا روتے تھے کہ یہ ان کی وجہ شہرت بن گئی شعر ملاحظہ فرمائیے۔

سرہانے میر کے آہستہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے


میر صاحب رونے کے لئے باقاعدہ وقت نکالا کرتے تھےمثلا یہ شعر دیکھیے

جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے

رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے 


گمان کیا جا سکتا ہے جن شعرا کی شاعری میں رونے کا عنصر غالب ہے وہ یقیناً دبلے پتلے ہوں گے ہمارے بعض شعرا کی شاعری میں اب بھی رونے کا ذکر ملتا ہےاور بعض کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ وہ اب روئے یا جب روئے پتہ نہیں وہ ایسا دبلا ہونے کی خواہش میں کرتے ہیں یا قدرتی طور پر ایسے دکھائی دیتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ رونے کے لیے بہترین وقت شام سات بجے سے رات دس بجے تک کا ہے۔ ہائے ہائے ظالم یہ تو پرائم ٹائم ہوتا ہے خاص طور پر خواتین اس دوران ڈرامے دیکھتی ہیں اور شوہر گھر آ جائے تو ڈرامے بازی بھی کرتی ہیں۔ حکیم شرارتی کی تجویز ہے کہ تحقیق کرنے والوں کو رونے کا وقت تبدیل کرنا چاہیے تا کہ بندے کا جب دل چاہے وہ تب رو لے۔

اس تحقیق نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اب یہ بھی بتایا جائے کہ وہ افراد جو دبلے پتلے ہیں اگر وہ محبوب کی جدائی میں رونے بیٹھ گئے تو کیا ان کا وزن بھی کم ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو مسئلہ بن جائے گا لہٰذا دبلے پتلے افراد کو محبت اور محبوب کی جدائی سے ایسے ہی گریز کرنا چاہیے جیسے بجلی کا محکمہ بجلی فراہم کرنے سے گریز کرتا ہے۔ بہر حال زائد وزن والوں کا مسئلہ تو حل ہو گیا تو پھر جائیے اور رونا شروع کر دیجیے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔