18 مئی ، 2019
لندن کی گرمیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر دھوپ منہ دکھادے تو لندن کی دوپہر لاجواب ہوتی ہے اور اگر آپ کسی کرکٹ گراؤنڈ میں یہ دوپہر گزاریں تو مزا دوبالا ہوجاتا ہے ۔
اس روز میں انتظار کررہا تھا، شاید کہ وہ کال کریں اور ایسی ہی کوئی بات کردیں ۔وہ یقیناً قبولیت کی گھڑی تھی اسی لیے میرےعزیز دوست سجاد حیدر کی کال آگئی۔پاکستان 5 ون ڈے کھیلے گا ، ورلڈ کپ کھیلے گا، ہر مفت خور کی طرح ہم بھی ایک آدھے ٹکٹ کی امید پر تھے ۔
سجاد ہمارے وہ دوست ہیں کہ جنہیں بخوبی علم ہے کہ کرکٹ ہمارا پہلا عشق ہے اور ان سے ٹکٹ مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہوں گے تو وہ ہم تک خود ہی پہنچ جائیں گے ۔
مگر یہ کال الگ تھی، سجاد نے مجھ سے کہا کہ ایک کام کے لیے دو دن کے لیے کارڈف جانا ہے۔ سجاد صاحب فون پر تھے اور میں نے فوراً گوگل پر چیک کرلیا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کہاں ہوگی۔
بات ختم ہوگئی ، مجھے دو ہفتے کا ٹائم ملا جس میں دفتر کے لوگوں کو سمجھا دیا کہ بہت ضروری کام سے ویلز جانا ہے۔ سجاد حیدر مشہور و معروف اے جے اسپورٹس بلکہ اے جے فیملی کے ایک اہم رکن ہیں اور اس دفعہ کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی آفیشل کٹ اے جے اسپورٹس نے تیار کی ہے اور اے جے اسپورٹس آفیشل اسپانسر بھی ہے۔
مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان ٹیم جب انگلینڈ میں 5 ٹیسٹ کی سیریز کھیلنے آئی تھی تو میں سجاد کے ساتھ اسی طرح کٹس ڈیلیور کرنے گیا تھا۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ جب بھی پاکستان ٹیم نے اے جے اسپورٹس کی کٹس پہنی پاکستان کو بڑے ٹورنامنٹس میں کامیابی ہی ملی ہے ۔
خیر یہ ورلڈ کپ کی کٹس تھیں اس لیے سجاد نے مجھے ذہن نشین کرا دیا کہ اگر اس کٹ کی ایک بھی تصویر لیک ہوئی، ہم سے یا کسی سے بھی تو آسمان اور زمین پھٹ جائیں گے، سب کچھ ختم ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ۔ تو اسائنمنٹ تھا کہ ورلڈ کپ کی ٹیم میں شامل لڑکوں کی ورلڈ کپ کی آفیشل جرسی میں تصاویر لینا تھیں۔
کرکٹ ٹیم ایک سخت شیڈول پر چل رہی تھی، اور وہ کارڈف میں ٹی 20 میچ کے لیے موجود تھی۔ سجاد اور میں جمعہ کی صبح 7 بجے لندن سے کارڈف، ویلز کے لیے روانہ ہوئے اور 3 گھنٹے کا سفر کرتے ہوئے ہم سوفیا گارڈنز پہنچ گئے۔
سجاد صاحب تو کرکٹ ٹیم سے اکثر ملتے ہیں مگر مجھے تو دو دن سے خوشی کے مارے نیند نہیں آئی تھی۔
پاکستان ٹیم جہاں پریکٹس کررہی تھی وہاں پہنچنے کے لیے ہمیں کم سے کم چالیس منٹ لگے ، کوئی دو تین دروازوں پر تفصیل سے بتانا پڑا کہ ہم کہاں جارہے ہیں، کیوں جارہے ہیں۔ پہلے ہماری ملاقات پاکستان ٹیم کے اسسٹنٹ منیجر سے ہوئی۔
سوفیا گارڈنز میں نے پہلے تو کھلاڑیوں کو دور سے دیکھا۔ اسسٹنٹ منیجر اور منیجر کی باتوں سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ مکی آرتھر جلدی غصہ کرجاتے ہیں اس لیے کچھ بھی ہوجائے ہماری تصویروں کے چکر میں پریکٹس میں خلل نہیں آنا چاہیے۔
تھوڑی دیر میں ہم لفٹ میں تھے اور کچھ دیر بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈریسنگ روم میں، سجاد صاحب فون پر اپنے کاموں میں مصروف تھے اور میں بس ڈریسنگ روم دیکھ کر ہی خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
ڈریسنگ روم میں تصویر اس لیے لینا ضروری تھی کیونکہ باہر صحافیوں کا اور کئی لوکل کرکٹرز کا رش لگ گیا تھا اور اگر پاکستان ٹیم کے کسی لڑکے کی ورلڈ کپ کی آفیشل جرسی میں تصویر لیک ہوجاتی تو سب کیے پر پانی پھر جاتا۔
ہم تصویریں کھینچنے کے لیے تیاری کررہے تھے کہ اچانک ٹیم کے وہ کھلاڑی جو بولنگ اور فیلڈنگ پریکٹس کرچکے تھے ڈریسنگ روم میں داخل ہونے لگے۔ میں خاموشی سے کونے پر کھڑا ہوا قومی ہیروز کو دیکھتا رہا۔
موقع ملتے ہی ٹیم کو ورلڈ کپ کی کٹ دکھائی گئی۔ زیادہ تر لڑکوں کو یہ نیا ڈیزائن اچھا لگا۔ سجاد صاحب سب سے مشورے لیتے رہے اور ایک ایک کرکے سب کی خواہشات کو ایک پرچے پر لکھتے گئے۔ کسی کو کالر سخت چائے تھا کسی کے بازو پر شرٹ ٹائٹ تھی، میں بہت خوش اپنی قسمت پر ناز کرتا ہوا تماشائی بنا یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی کہ میں ایک چھوٹے بچے کی طرح ٹیم کے کھلاڑیوں کی ہر بات کو خاموشی سے سنتا رہا اور مسکراتا رہا ۔
مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہورہی تھی کہ سینئر کھلاڑیوں کا نوجوانوں کے ساتھ برتاؤ متاثر کن تھا۔ محمد حفیظ اور کیپٹن دونوں اس ڈریسنگ روم کے سینئر ترین کھلاڑی تھے، ان دونوں لیجنڈز کا جونیئرز مثلاً حسنین، عابد، آصف اور دیگر کے ساتھ تعلق بہت خوبصورت لگا۔ ہم نے کوشش کرکے زیادہ تر کھلاڑیوں کی تصاویر اتار لی تھیں اور پھر اعلان ہوا کہ سب لوگ نیچے جیم میں جمعہ پڑھنے کے لیے تشریف لے جائیں۔
سوفیا گارڈنز میں ایک اسپورٹس شاپ ہے جہاں سجاد صاحب کو کچھ سامان ڈیلیور کرنا تھا۔ دکان کے مالک عصوانی صاحب کو باتوں باتوں میں جب پتا چلا کہ ہم سرفراز احمد سے پھر ملیں گے تو انہوں نے ایک بلے کا ذکر چھیڑ دیا۔
2016 میں پاکستان ٹیم کے ساتھ سرفراز احمد کا کارڈف آنا ہوا تھا۔ عصوانی صاحب کا کہنا ہے کہ ایک میاں بیوی ان کی دکان میں آئے اور ایک بیٹ (بلا) اس مقصد سے خریدا کہ اس پر سرفراز سے سائن کروا کر ساتھ امریکا لے جائیں گے ۔ بیٹ بک گیا بات ختم ہوگئی ۔ ایک مہینے بعد لندن ٹرینز لوسٹ اینڈ فاؤنڈ سے ان کے پاس ایک فون آیا انہوں نے بتایا کہ ٹرین میں کوئی ایک ڈبہ بھول گیا ہے اور اس پر آپ کا ایڈریس لکھا ہے۔ بیٹ واپس اسی دکان پہنچ گیا جہاں سے خریدا گیا تھا البتہ اب اس پر سرفراز احمد کے دستخط تھے ۔
2016 سے عصوانی صاحب اس بلے کو دل سے لگائے سنبھال کے رکھے ہوئے تھے انہوں نے سجاد صاحب سے کہا کہ پتا کریں اگر سرفراز کو یہ بیٹ یاد ہو۔
شام کو ہم ہوٹل پہنچے سجاد صاحب نے اسی ہوٹل میں کمرہ کروا رکھا تھا جہاں ٹیم رکی ہوئی تھی ۔ شام کو پتا چلا کہ کیپٹن یعنی سرفراز ہمارے ساتھ ڈنر پر جارہے ہیں۔
سرفراز کی شخصیت کو اگر بیان کرنا ہو تو اسٹریٹ اسمارٹ ، حاضر دماغ، سمجھدار، ملنسار اور کرکٹ کے ہم سے بھی زیادہ بڑے عاشق۔ میں نے کھانے میں ننڈوز آرڈر کیا تو موقع غنیمت جان کر باتوں باتوں میں سرفراز سے دو تین سوال پوچھ لیے ۔
سوال1) سیفی بھائی لڑکے فارم میں ہیں، کس سے سب سے زیادہ امیدیں ہیں؟
جواب) سب سے ہی ہیں، ٹیم بہت اچھی ہے میری ویسے لگتا ہے" فخر "۔
سوال 2) سیفی بھائی آپ کو تین چیزوں پر کام کرنا پڑتا ہے، بیٹنگ، کیپنگ اور کپتانی ، سب سے زیادہ مزا کس چیز میں آتا ہے ؟
جواب) کپتانی میں، مطلب حکمت عملی بنانے میں، گیم پلان سیٹ کرنے میں، فیلڈنگ سیٹ کرنے میں، مزا آتا ہے ۔
سوال3) دھونی یا کوہلی؟
جواب) مجھے دونوں بہت پسند ہیں، مگر مجھے لگتا ہے دھونی ایک بہتر کپتان ہے۔ کوہلی بھی اچھا ہے۔ آگے جاکر وہ بھی اور بہتر کپتان ثابت ہوسکتا ہے ، اس میں صلاحیت ہے مگر دھونی ایک زبردست کرکٹنگ دماغ ہے۔
سیفی بھائی (سرفراز ) کھانے کے بعد چینج کرکے پھر ہمارے پاس آگئے، کچھ دیر بیٹھے اور اچھی گپ شپ کے ساتھ نعت اور منقبت کا سلسلہ بھی رہا ۔ سیفی بھائی کو اللہ نے خوبصورت آواز بیھ دی ہے اور انہوں نے سچے دل سے وہ نعت و کلام سنایا کے سجاد صاحب اور میرا دل باغ باغ ہوگیا۔
بات نکلی تو میں نے بلے کا ذکر چھیڑ دیا کہ اگر سرفراز کو یاد ہو کہ وہ بلا کس کے لیے سائن کیا تھا ، 2 دن میں میری آنکھوں کے سامنے سرفراز اور دوسرے لڑکوں نے کوئی 100 بلے اور پتا نہیں کتنی اور چیزیں سائن کی ہونگی ، یقین نہیں آیا جب سرفراز کو یاد آگیا کہ وہ بلا کب کہاں اور کس کے لیے سائن کیا تھا ۔ وہ بلا انہوں نے اپنے ہی کسی رشتے دار کے لیے سائن کیا تھا جو کے 2016 میں اپنی اہلیہ کے ساتھ کارڈف میں میچ دیکھنے آئے تھے اور سرفراز سے ملے تھے ۔ ہماری ذرا سی کوشش سے اب وہ بلا یو ایس اے پہنچ جائے گا۔
پاکستان میں اگر کوئی واقعی مشہور شخصیات ہیں تو وہ ہیں کرکٹرز۔ رات کو 11 بجے جب میں کیمرے کا بیٹری چارجر لینے گاڑی کی پارکنگ کی طرف جانے لگا تو دیکھا کہ ایک بنگلہ دیشی نوجوان ہاتھ میں ڈائری ایک پین اور گلے میں ایک کیمرہ ڈالے کھڑا ہے۔ میں بیٹری چارجر لے کر واپس آیا تو اس نے مجھے روک لیا اور مجھ سے کہا کہ کیا میں محمد عامر کو جانتا ہوں ؟
میں نے کہا ان کو کون نہیں جانتا ، تو اس نے حسرت سے مجھ سے پوچھا کیا آپ میری ملاقات ان سے کروا سکتے ہیں ؟ وہ عامر کا بہت جانثار فین تھا ۔ میں جانتا تھا سب سوچکے ہونگے میں نے معذرت کی اور اسے دن میں لی گئی کچھ سیلفیاں دکھائی ۔ وہ اتنا خوش ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے میں نے اس سے پوچھا کہ عامر کی پرفارمینس حالیہ دنوں کچھ خاص نہیں ہے تو اس نے جواب دیا ۔
" form is temporary but class is permanent"
میں واپس آگیا مگر یہ بات اور یقین سے کہہ سکتا ہوں ہم فیورٹ نہ سہی ہماری ایک کلاس ہے ، ہم خطرناک ٹیم تھے اور ہیں ، مجھے ٹیم سے مل کر بہت تسلی ہوئی کہ مخلص کوچنگ، منیجنگ اسٹاف اور سمجھدار کپتان کے ہونے سے ٹیم ورلڈ کپ کے لیے تیار ہے اور ہم کسی بھی ٹیم کو ہرانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ عامر کو نہیں معلوم اس رات ایک بنگلہ دیشی رات کو دیر گئے اس کی ایک جھلک کا انتظار کرتا رہا ۔ اس بنگلہ دیشی فین کی اس رات عامر سے ملاقات نہیں ہوئی مگر کیونکہ میری عامر سے اسی دن ملاقات ہوئی تھی وہ میرے ساتھ ایک سیلفی لے کر چلا گیا ۔