07 اگست ، 2019
کیا روشنیوں کے شہر کراچی کیلئے ہر گند، کوڑے کرکٹ اور آلودگی سے صفائی کی کوئی امید ہے؟ 70کی دہائی میں ایم اے جناح روڈ سمیت کراچی کی اہم شاہروں کی روز تو نہیں لیکن ہر ہفتے صفائی ہوتی تھی۔
کیا ہم یہ دوبارہ کر سکتے ہیں؟ 21 ایم این ایز، 44 ایم پی ایز، سیکڑوں کونسلرزاور بڑی سیاسی پارٹیوں کے ہزاروں کارکنان جنھیں شہریوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے، وہ کافی حد تک کام کر سکتے ہیں۔ صرف اپنا حلقہ صاف رکھیں اور ہفتوں میں نہیں تو چند ماہ میں ہی شہر مختلف نظر آئےگا۔
جہاں تک شہری، سندھ کے اور وفاقی حکومت کے کردار کا تعلق ہے تو انھیں نہ صرف پلاسٹک بیگز، گٹکاپر پابندی لگانے کی ضرورت ہے بلکہ ان تمام ذرائع کو بھی بند کرنا ہوگا جہاں سے یہ آتے ہیں۔ مجھے تاحال اس میگا سٹی کےوہ پرانے اچھے دن یادہیں جب پارک اور پلے گراؤنڈز کو باقاعدہ پانی کی سپلائی ملا کرتی تھی تاکہ گھاس اور گراؤنڈ صاف رہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے ملک کےسب سے بڑے شہر کو’خون کی ندیوں‘ میں دیکھا۔ اسے صاف کرنے کی حالیہ کوشش کہاں تک کامیاب ہو گی یہ دیکھنا دلچسپ ہوگالیکن یہ یقین ہےکہ درست سمت میں ایک قدم کافی دورتک جاتاہے۔
لہذاملک کے معاشی مرکز کو درحقیقت کیا ہوا کہ روشنیوں کا شہر وفاق کو 70 فیصد ریوینیو دینے کے باوجود تاریکیوں میں ڈوب گیا، اس کیلئے مکمل مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
پرانےکراچی کی بحالی ایک مشکل کام ہو گا لیکن ہم تاحال ’نیا کراچی‘بنانےکا خواب دیکھ سکتے ہیں، ضرورت صرف اس کی ذمہ داری لینے کی ہے۔
یہ تجزیہ روزنامہ جنگ میں 7 اگست کو شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔