اسلام میں مذہبی رواداری اور احترامِ انسانیت کا تصور

فوٹو: فائل

اسلام رواداری ،امن و سلامتی اور احترام ِ انسانیت کا دین ہے، اسلامی شریعت اور اسلامی ضابطۂ حیات کے مطابق اسلامی معاشرے کا ہر فرد بلاتفریق مذہب و ملّت عزت ومساوات اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے یکساں حیثیت کا حامل ہے۔اسلامی ریاست میں مملکت کے تمام باشندے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں ،بلاتفریق عقیدے اور مذہبی معاملات میں پوری طرح آزاد ہیں۔ان پر مذہبی معاملات میں کسی قسم کا کوئی جبر و زبردستی نہیں ہوگا۔اس حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ۔(سورۃ البقرہ)

قرآن پاک نبی کریم ﷺ کو خطاب کر کے ہر مسلمان کو تنبیہ کرتا ہے:ترجمہ:’’ اگر اللہ چاہے تو زمین کے تمام رہنے والے مومن ہوجائیں تو کیا تم لوگوں کو مومن بنانے میں جبر و اکراہ کرنا چاہتے ہو‘‘۔

مدینہ منورہ میں ۸ھ تک اسلامی حکومت میں غیر مسلم جتنے تھے، وہ رعایا کی شکل میں نہ تھے، بلکہ قبائلی زندگی میں جس طرح تمام قبائل برابر کے حقوق کے حق دار ہوتے ہیں ،اس طرح میثاق مدینہ کی رو سے تمام قبائل یعنی اوس وخزرج وغیرہ اسلامی حکومت سے معاہدہ کر کے اس میں برابر کے شریک تھے۔ پیغمبر آخرالزماں ﷺ کو ایک ایسے سربراہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جو سیاسی تفوق سے زیادہ شخصی کردار کی بنیاد پر قابل احترام ہو اور اسے معاملات کے فیصلوں میں حَکم مان لیا گیا ہو۔ جب خیبر فتح ہوا تو یہودی بستیوں پر غلبہ حاصل کرلینے کے بعد ان پر جزیہ لگایا گیا جو ایک تاوان جنگ کی سی صورت میں تھا۔ اس کے بعد اسلامی حکومت میں وسعت ہوئی اور مسلمانوں کو ۱۰ھ کے آتے آتے تمام جزیرۃ العرب پر غلبہ حاصل ہوگیا، اب غیر مسلم رعایا کا مسئلہ پیدا ہوا دنیا کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ فاتح قوم نے کبھی بھی مفتوح اقوام کو اپنے برابر کے حقوق نہیں دیئے ،زمانۂ قبل از تاریخ سے آج تک کی تاریخ میں ایسے ہزارہا واقعات مل جائیں گے کہ فاتح قوم نے نہ صرف یہ کہ مفتوح قوم کو غلام بنایا، بلکہ ان کے مذہب، ثقافت اور معیشت تک کو برباد کیا۔

انسانی فطرت سے اس کی توقع کی جاسکتی تھی کہ مسلمان جب غالب ہوگئے اور جزیرۃ العرب میں بسنے والے دیگر مذاہب کے پیرو کار جو رسول اللہ ﷺ اور دین کو نہیں مان رہے تھے اور ہمیشہ سے ان سے برسرپیکار رہے تھے، ایسے میں مسلمان ان سے کم از کم بہت نرم برتائو بھی کرتے تو ان کو اپنا آبائی دین چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کرسکتے تھے ،اس لیے کہ وہ غالب تھے۔ یہاں پر بھی قرآن حکیم نے صاف صاف بتا دیا کہ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب، ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کوجبراً مسلمان بنائیں ،ارشاد ہوا’’ دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘‘۔

یہ ایک بنیادی اصول بتا دیا گیا ہے کہ دین کے قبول کرنے میں یا کسی دین کو رد کرنے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن حکیم میں مذہبی عبادت گاہوں کے احترام میں ایک ایسا اشارہ بھی ملتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت گاہیں خواہ مسلمانوں کی ہوں یا غیر مسلموں کی سب کی سب قابل ِ احترام ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور عہد خلافتِ راشدہؓ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی، جس سے یہ ثابت ہو کہ اسلام کی تبلیغ میں زور، جبر، زبردستی یا تشدد کا استعمال ہوا ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ دین کے بارے میں کسی قسم کا جبر نہیں،اس کی وضاحت اس طرح بھی کی گئی ہے:(ترجمہ)اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو زمین کے سب لوگ ایمان لےآتے،تو کیا اے پیغمبرﷺ ،آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں‘‘۔(سورۂ یونس:۱۰)

اسلام ایک ایسا دین ہے جو کسی بھی مذہب کو بری نگاہ سے نہیں دیکھتا، بلکہ تمام آسمانی مذاہب کی تصدیق کرتا اور ان کے پیروکاروں کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں، یہودیت اور عیسائیت کی طرح وہ اپنا دروازہ طالب ہدایت کے لیے بند نہیں کرتا، بلکہ ہر وقت کھلا رکھتا ہے، مگر کسی بھی غیر مسلم کو جو مسلم حکومت کے زیر نگیں زندگی گزار رہا ہو، مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اسلام قبول کرلے ،قرآن کریم میں واضح حکم ہے:دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔سورۃ النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اپنے رب کے راستے کی طرف اچھی باتوں کے ذریعے بلائو اور بہت پسندیدہ طریقےسے بحث کرو‘‘۔اسی کے ساتھ اس کی بھی تلقین ہے :مسلمانو! جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں ،انہیں برا نہ کہو، یہ لوگ نادانی سے خدا کو برا کہنے لگیں گے۔ (سورۃ الانعام)نیزفرمایا گیا:’’جس نے اس کے رسولﷺ کی ہدایت کے مطابق سیدھی راہ اختیار کی، وہ تو اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے اور جو بھٹکا ،وہ بھٹک کر اپنا ہی راستہ کھوٹا کرتا ہے‘‘۔سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد رب العزت ہے:جو شخص سیدھی راہ پر چلتا ہے وہ اپنے نفع کے لیے راہ پر چلتا ہے اور جو شخص بے راہی اختیار کرتاہے سو وہ بھی اپنے نقصان کے لیے بے راہ ہوتا ہے‘‘۔ ان آیتوں سے واضح ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ روگردانی کرنے والوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے ،ان پر کوئی زور، جبر اور زبردستی نہ کی جائے۔

نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے مختلف اقوام سے جو معاہدے کیے اور ان کے ساتھ جو صلح نامے کئے ،ان میں اسلام کی وسعت نظری اور دریادلی کا ثبوت ملتا ہے۔

اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ عزت واحترام کا معاملہ کیا اور ان کا ہر طرح پاس ولحاظ رکھا، اگر انہوں نے اسلامی ریاست میں رہنا قبول کرلیا اور ان سے عہد وپیمان ہوچکا تو اب ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمے داری قرار پائی۔ کسی طرح کی ظلم وزیادتی کا ان کو شکار نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کا اندازہ نبی کریمﷺ کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے۔’’خبردار جس کسی نے معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کی استطاعت سے زیادہ اس سے کام لیا۔ اس کی رضا کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جھگڑوں گا۔ (قرطبی،الجامع لاحکام القرآن ج:۸، ص:۱۱۵)

دین ومذہب کے سلسلے میں مسلمانوں کے ساتھ دوسری اقوام نے کیا سلوک و برتاؤ کیا، کس طرح انہیں مذہبی جبر واکراہ کا شکار بنایا ،اس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں آج تک محفوظ ہے کہ اندلس کی سرزمین پر مسلمانوں نے کئی سو سال تک حکومت کی اور وہاں کے چپے چپے پر اسلامی تہذیب وثقافت کی یادگاریں قائم کیں، لیکن جب حکومت واقتدار ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور دشمنوں نے انہیں آگھیرا توغیرمسلموں نے ان کے ساتھ کیسی سفاکی و درندگی کا مظاہرہ کیا۔سنگدلی اور بے رحمی کی یہی تاریخ صقلیہ میں بھی دہرائی گئی۔ جہاں عربوں نے دوسوسال تک حکومت کی تھی۔پانچ سو مسجدیں تھیں، انہیں منہدم کرکے گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ وہاں علماء، صوفیا اور حکماء کی جتنی قبریں تھیں،سب نیست و نابود کردی گئیں۔ اسلام نے دوسرے مذاہب وادیان کے ماننے والوں کو کتنی عزت وتوقیر سے نوازا، انہیں کس طرح کی مذہبی آزادی دی اور کس طرح ان کے حقوق کا پاس ولحاظ رکھا۔ اس کے بالمقابل مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب کےپیروکاروں نے کیا سلوک اورطریقہ کار اپنایا۔ وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔یہ ہے واضح فرق اسلام اور دیگر مذاہب میں ،حقیقت یہ ہے کہ اسلام جیسی رواداری ،وسعتِ قلبی دنیا آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے۔

مزید خبریں :