21 اکتوبر ، 2019
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر آئینی درخواستوں کی سماعت کرنے والا فل کورٹ بینچ دوسری بار ٹوٹ گیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے 20 ستمبر کو سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
واضح رہےکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کی جانب سے لارجر بینچ پر اعتراض کے بعد 7 رکنی بینچ تحلیل کردیا گیا تھا اور بینچ کی ازسرنو تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک دوسرا بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم اب یہ بینچ بھی تحلیل ہو گیا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی عدم دستیابی پر بینچ تحلیل کر رہے ہیں اور نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ مقدمے کے سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا امید ہے اسی ہفتے ہی دوبارہ درخواستوں پر سماعت کریں گے۔
بینچ کو نئے سرے سے تشکیل نہیں دیا جا سکتا: حامد خان
بینچ کی از سر نو تشکیل کے معاملے پر سینئر وکیل حامد خان نے کہا کہ ایک بینچ بن جائے تو وہی بینچ کیس کے آخر تک سماعت کرتا ہے، اگر کیس کی سماعت کے دوران جج دستیاب نہیں تو اس کی واپسی کا انتظار کیا جاتا ہے، بینچ کو نئے سرے سے تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔
حامد خان نے کہا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کا آرڈر ہے کہ کیس فل کورٹ ہی سنے گی، اب نیا بینچ بنانے کا کوئی جواز نہیں، کیس فل کورٹ ہی سنے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی جج دستیاب نہیں تو اس کا انتظار کریں، ایک ہفتے بعد کیس سن لیں، کسی بھی جج کو فل کورٹ سے ڈراپ نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز کو بینچ میں 10 ججز کے علاوہ اضافہ یا کمی قبول نہیں ہے۔
ججز کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کردیا ہے۔