سکھ دھرم کے بانی کا مشن

اے ایف پی—

آج بابا نانک جی کے 550ویں جنم دن کے موقع پر کرتاپور امن راہداری کا افتتاح ہونے جا رہا ہے جس میں ہمارے آرمی چیف اور وزیراعظم کے علاوہ بھارتی عمائدین بھی بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔

 یہ حکومتِ پاکستان اور انڈین سرکار کا ایسا تاریخی فیصلہ ہے کہ جس کی برکت سے نسلوں کی منافرت محبتوں میں بدل سکے گی۔ ارضِ پاکستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں سکھ دھرم کے بانی بابا گورونانک دیو جی کا نہ صرف جنم استھان ننکانہ صاحب واقع ہے بلکہ وہ زرخیز خطہ ارضی بھی موجود ہے جس پر بابا نانک جی نے اپنی زندگی کے آخری 18سال گزارے، کھیتی باڑی بھی کی اور رشدو ہدایت کے دیپ بھی جلائے جن کی لو یا روشنی میٹھے شبدوں کے ساتھ امن، بھائی چارے، دوستی اور محبت کا پیغام بن گئی۔

 گورو گرنتھ صاحب کے مطابق ایک جگہ بابا جی فرماتے ہیں ’’یہ وسیع و عریض زمین تمہاری ماں ہے اور پانی باپ۔ ہوا گرو ہے اور دن رات دائیاں ہیں جن کی گود میں تم سب لوگ آرام کرتے ہو لیکن کرتار (خدا) کے قریب تر وہی ہوگا جس کے اعمال اچھے ہوں گے، اس کے حضور سب کی خوبیاں اور خامیاں پرکھی جائیں گی‘‘۔

نانک نام کا یہ خوبصورت پھول 1469میں شیخوپورہ کے موضع تلونڈی کے ایک ہندو کھتری کلیان چند المعروف کالو رائے کے گھر کھلا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم روایتی ہندو دھرم کے مطابق ہوئی مگر نو عمری سے ہی یہ ذہین و فطین نونہال اپنے ہمجولیوں سے مختلف تھا۔ مثال کے طور پر ان کے والد نے معقول رقم دے کر کام کاج یا کاروبار کے لیے انہیں قریبی قصبے میں بھیجا وہاں ان کی ملاقات سادھوؤں کے ایک ایسے گروہ سے ہوئی جو کئی روز سے بھوکے تھے۔ آپ نے باپ کی دی رقم ان بھوک سے نڈھال سادھوؤں پر خرچ کر دی اور خالی ہاتھ گھر واپس آگئے۔ جب باپ نے شتابی سے واپسی کا کارن پوچھا تو کہا کہ میں نے ایشور کے نام پر سچا سودا کیا ہے۔ 

آج اسی مقام پر ’’سچا سودا‘‘ کے نام کا گوردوارہ قائم و دائم ہے۔ ہندو دھرم سے باباجی کی تمام تر عقیدت مندی کے باوجود آپ کا رجحان و میلان وقت کے ساتھ مسلم صوفیاء کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

 مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب میں سلطان پور کے مقام پر دو دہائیاں گزارتے ہوئے آپ نے سچائی کی تلاش کا سفر کوئی پون صدی تک جاری و ساری رکھا۔ یہ سفر انہیں مکہ و مکرمہ اور بغداد شریف تک لے گیا لیکن بالآخر انہوں نے اپنی 70سالہ زندگی کے آخری 18سال موجودہ ضلع نارووال کے گاؤں کرتارپور میں گزارے جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے اور کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی افکار و خیالات اور تعلیمات کا پرچار کیا۔

پانچ صدیاں قبل ظاہر ہے پاک ہند یا پنجاب کی موجودہ تقسیم تھی اور نہ ہی موجودہ بارڈر تھے، قدیمی بستیاں بالعموم دریاؤں کے آس پاس آباد ہوا کرتی تھیں۔ کرتار پور نامی گاؤں دراصل بابا جی نے ہی ایک ہندو جاٹ دو دھاجی کے ساتھ مل کر دریائے راوی کے مغرب میں آباد کیا تھا۔

 دلچسپ امر یہ ہے کہ بابا جی نے یہاں رہائش رکھتے ہوئے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کے لیے راوی کے مشرق میں ڈیرہ دون کا انتخاب کیا جو اب ’’ڈیرہ بابا نانک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں ان کے تبرکات بشمول حاکم ِ بغداد سے دان ہونے والا چولا جس پر قرآنی آیات تحریر ہیں، محفوظ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بابا جی راوی میں اشنان کرتے ہوئے مشرقی پنجاب کو مغربی پنجاب سے ملا رہے۔ تھے یہ حقیقت کرتار پور راہداری کی صورت آج عقیدت مندانِ نانک کے لیے سوچوں کے نئے دریچے کھول رہی ہے۔

کرتارپور راہداری امن منصوبہ پاکستان اور ہندوستان میں موجود حالیہ تمام تر تلخیوں کے باوجود شیرینی کا ایک ٹکڑا بن گیا ہے۔ یہ امن و سلامتی کی راہ ہے جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر پانچ ہزار یاتری بغیر ویزے کے 20ڈالر کی فیس حکومتِ پاکستان کو ادا کرتے ہوئے اپنے گورو کی سمادھی کے درشن کر سکیں گے۔

 درویش کی نظر میں اس نیک مقصد کو بڑھاوا دینے کے لیے فیس پانچ ڈالر ہی کافی ہوگی تاکہ غریب یاتریوں کے سنگت بخوشی اپنے گورو کی آخری آرام گاہ کا دیدار بار بار کر سکیں اور بارڈر کے اس مخصوص پوائنٹ کو ’’پریت سنگھم‘‘ کانام دیا جائے۔ 

بابا نانک دیو جی کی زندگی اور جد وجہد پر گہری نظر ڈالی جائے تو ثابت ہوگا کہ اُن کا حقیقی مشن ہندو مسلم ایکتا تھا۔ در حقیقت وہ کوئی نیا مذہب متعارف نہیں کروانا چا ہتے تھے بلکہ دونوں قدیمی مذاہب اورخطے میں باہمی محبت اور انسان دوستی کو پروان چڑھانا ان کا مقصود تھا۔ 

اس عظیم المرتبت سادھو، درویش اور صوفی نے جو چراغ محبت جلایا آج اس کے پروانے لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہیں۔ آج دنیا بھر کے سکھ ہی ان کی فکری عظمت کے سامنے سر نہیں جھکاتے، مسلمانوں میں بھی ان کے عقیدت مندوں کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے مانے جانے والے فلسفی شاعر علامہ اقبالؒ نے جس مہان ہستی کے لیے ’’مردِ کامل‘‘ اور ’’نورِ ابراہیمؑ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں وہ بابا نانک جی ہیں۔ عصرِ حاضر میں آپ ہر دو مذاہب ہندو مسلم کے بیچ پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

میرے دوست احسن اقبال نے کرتارپور راہداری میں بغیر ویزے اور پاسپورٹ آنے والے یاتریوں کے حوالے سے حکومت پر جو تنقید کی ہے وہ قطعی نامناسب ہے۔ احسن صاحب حکومت پر تنقید کے لیے آپ کے پاس ایک سو ایک وجوہ موجود ہیں، کم از کم اس مثبت کام پر تنقید نہیں بلکہ توصیف بنتی ہے اور اگر آپ لوگوں کی حکومت ہوتی تو مسلم لیگ (ن) نے بھی یہ کام اسی جذبے سے کرنا تھا۔ 

ہمارے جو دوست یہ اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ پنجاب کے بارڈر پوائنٹ پر ہر چیز سافٹ اور کشمیری پوائنٹ پر ہرچیز ہارڈ کیوں ہے؟ عرض ہے کہ پاکستانی عوام اور حکومت تو کشمیر کے متعلقہ مقام یعنی لائن آف کنٹرول کو بھی اتنا سافٹ بنانا اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ جہاں سے ہر دو خطوں کے کشمیری بغیر ویزے اور پاسپورٹ آجا سکیں، اور یہ چیز راجستھان کے راستے خواجہ غریب نوازؒ کے دربار اور چکوال میں کٹاس مندر تک پھیل جائے گی کیونکہ دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے۔

مزید خبریں :