17 نومبر ، 2019
شوبزانڈسٹری کو عام طور پر ’’خوابوں کی دُنیا ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ایک ایسا جہان، جس میں داخلے کا ہر خواہش مند آنکھوں میں اَن گنت سپنے لیے ہوتا ہے،مگر تعبیر چند ایک ہی کو مل پاتی ہے۔ کسی کے لیے تو اس رنگ برنگ جادو نگری کے سب رنگ و آہنگ پھیکے پڑجاتے ہیں،تو کسی کو چہار سُو رنگ ہی رنگ برستے محسوس ہوتے ہیں۔
جس پرقسمت کی دیوی مہربان ہوجاتی ہے ،اُسے شاہ راہِ شہرت پہ ِ سفرکا پروانہ مل جاتاہے، تو بےشمار اس دشوار رہ گزر سے واپس بھی پلٹ جاتے ہیں۔ چند برس قبل ایک خوبرو نوجوان نے اپنی مرحومہ بہن کا خواب پُورا کرنے کے لیے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اورپھردھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ایک کام یاب ہیرو بن گیا۔
جی ہاں،ہم بات کررہے ہیں، باصلاحیت، باکمال، تعلیم یافتہ،’’ قد آور‘‘ فن کار، بلال اشرف کی،جنہوں نے بہت کم عرصے میں پانچ فلموں میںبہترین اداکاری کے جوہر دکھا کر اپنی خدا داد صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔رواں برس بلال اشرف نے انٹرنیشنل کمپنیز کے لیے چندٹی وی کمرشلز بھی کیے،جن میں وہ مایا علی اور کبریٰ خان کے ساتھ نظر آئے،جب کہ سینیما اسکرین پربھارت اور پاکستان میں یک ساں مقبول ہیروئن ماہرہ خان کے ساتھ فلم ’’سُپراسٹار‘‘ میں جلوہ گر ہوئے۔
اسی فلم نے بلال اشرف کو حقیقی معنوں میں سُپراسٹار بنایا۔انہوں نے فلموں، ڈراموں کی منجھی ہوئی اداکارہ ماہرہ خان کے مدِمقابل جم کر ایسی شان دار اداکاری کی کہ فلم بین واہ واہ کرتے رہ گئے ۔واضح رہے کہ فلم ’’سُپر اسٹار‘‘ کے کردار میں حقیقت کا رنگ بَھرنے کے لیے بلال نے تھیٹرکلاسز لیں اورفٹنس ایکسپرٹ کی نگرانی میں باڈی شیپنگ پر خُوب محنت کی۔
بلال اشرف نئی نسل کے شاید وہ واحد فن کار ہیں، جنہوں نے اب تک کسی ٹی وی ڈرامے میں کام نہیں کیا۔اُن کا کہنا ہے، ’’مَیں بنیادی طور پر فلموں کا اداکار ہوں‘‘۔بلال اشرف کی اس سے قبل جو فلمیں ریلیز ہوئیں،اُن میں’’021‘‘، ’’جانان‘‘،’’یلغار‘‘ اور’’ رنگ ریزہ‘‘ شامل ہیں۔
گزشتہ دِنوں ہم نے ’’ڈمپل بوائے‘‘ بلال اشرف سے جنگ، سنڈے میگزین کے مقبول ِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے ایک خصوصی ملاقات کی، جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔
س: خاندان اور ابتدائی تعلیم سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: والدہ کا تعلق امرتسر اور والد کا لاہور سے ہے،لیکن ہم کراچی میں رہتے ہیں۔والد صاحب پاک فوج میں تھے۔مَیں نے کراچی سے اے لیول کے بعد مزید تعلیم بیرونِ مُلک سےحاصل کی۔ لندن سے ویژول افیکٹس(visual effects)میں ماسٹرزکرکے آیا ہوں۔وہاں میری بہن پڑھنےکے ساتھ پڑھاتی بھی تھیں اور تھیٹر ڈائریکشن بھی کرتی تھیں۔ اُن ہی کی وجہ سے مجھے شوبز انڈسٹری سےوابستگی کاشوق ہوا۔
س:کتنے بہن بھائی ہیں اور آپ کا نمبر کون سا ہے؟
ج:مَیں اکلوتا ہوں۔ دو بہنیں تھیں، جن میں سےایک بہن،سعدیہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر ہمیں ہمیشہ کے لیے تنہا کر گئیں۔اب بس ایک بڑی بہن ہیں۔
س:بچپن کیسا گزرا؟
ج:میرا بچپن بہت سادہ سا تھا۔کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا ،خاص طور پرکرکٹ کا جنون تھا۔ دورانِ تعلیم میری توجّہ اسپورٹس ہی پر زیادہ رہی،کبھی اداکاری کی طرف دھیان نہیںگیا۔
س:آپ کے والد پاک فوج میں تھے، تو فوجی بننے کا خیال نہیں آیا؟
ج:پاک آرمی جوائن کرنے کی خواہش تھی،مگر نہیں جا سکا، البتہ فلم’’یلغار‘‘ میں کیپٹن کے رُوپ میں ڈھائی تین برس فوجی ماحول میں گزارے، تو یہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔ ویسےوالد صاحب نےبھی کبھی دباؤ نہیں ڈالا کہ میں فوج میں ضرورجاؤں۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے، جو دِل چاہے، وہی کرو۔
س: ماسٹرزکے بعدجب پاکستان آئے،توپہلا کام کیا کیا؟
ج: پاکستان آ کر مَیں نے ایک چھوٹے سے اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔ابتدا میں چھوٹے چھوٹے کمرشلز اور ڈاکو مینٹریز بنانا شروع کیں۔ یہ وہ وقت تھا، جب ہماری فلم انڈسٹری بحران کا شکار تھی اور فلمیں بننا تقریباً بند ہو گئی تھیں۔
س:فن کی دُنیا میں باقاعدہ آمد کیسے ہوئی؟
ج:ابتدا میں، مَیں نے کیمرے کے پیچھے رہ کر کام کیا۔ بحیثیت ویژول ایفیکٹ ڈائریکٹر کام کرتا رہا۔مختلف ڈائریکٹرز کے ساتھ ٹی وی کمرشلز کے لیے بھی کام کیا۔ اس دوران وقتاً فوقتاً اداکاری کی آفرز بھی ہوتی رہیں۔ سب یہی کہتے تھے،’’ آپ اسمارٹ ہیں، آپ کو ماڈلنگ اور ایکٹنگ کرنی چاہیے۔‘‘لہٰذابتدا میں چند ٹی وی کمرشلز کیے۔پھر فلم کی آفر آئی، توپہلے’’یلغار‘‘ اور پھر ’’جانان‘‘ میں کاسٹ ہوا ۔ اتفاق سے ’’جانان‘‘ پہلے ریلیز ہو ئی اور بہت ہٹ بھی ہو گئی۔
س:پہلی کمائی کتنی تھی؟
ج: ڈھائی لاکھ روپے کا چیک ملا تھا،جو والدہ کودے دیا تھا۔
س:فیلڈ میں آنے کے بعد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج:اچھی خاصی مشکلات کا سامنا کیا۔گرچہ میری پہلی فلم ’’جانان‘‘ کام یاب رہی، لیکن ایسا نہیں ہے کہ مَیں نے ناکامی کا ذائقہ نہیں چکھا اور درحقیقت ناکامی کے بعد ہی آپ کو لوگوں کے چہرے اور مختلف رُوپ دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
س: فلم’’ رنگ ریزہ‘‘ میں خاطر خوا ہ کام یابی حاصل نہیں ہوئی، اس کے باوجود آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی اداکارہ کے ساتھ کاسٹنگ کی پیش کش ہوئی، تو کیسا محسوس ہوا؟
ج:’’سُپراسٹار‘‘ میں ماہرہ خان کے مدِّمقابل کام کی آفرملی ، تو خوشی اورفخر کے ملے جُلےسے تاثرات تھے ۔ تب یہی سوچ کے حامی بھرلی کہ ایک تو ماہرہ خان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا، دوسرا منجھے ہوئے ڈائریکٹر احتشام الدین کی سرپرستی میں کام کروں گا۔ پھر ’’سُپراسٹار‘‘ کی کاسٹ بڑی تھی،تو میری نظر میںشوبزانڈسٹری میں کچھ چیزیں جو مِسنگ تھیں،وہ اس گروپ کی صُورت مل رہی تھیں اور سونے پہ سہاگا اذان سمیع کا شان دار میوزک بھی تھا ۔
س:سُنا ہے کہ آپ پاکستان کے کسی نام وَر اداکار کی جگہ لینا چاہتے ہیں؟
ج: مَیں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مَیں نمبروَن ہیرو بن کر کسی اداکار کی جگہ لے لوں گا۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہیں۔ مَیں تو بس،شوبزانڈسٹری میں اپنی چھوٹی سی جگہ بنانا چاہتا ہوں، وہ بھی اس لیے کہ میری بہن سعدیہ کا خواب تھا کہ مَیں فلموں میں بطور ہیرو آئوں۔ وہ پاکستان کے لیےایک بڑی فلم بنانا چاہتی تھیں اوراسی لیے مَیں نےفلمی دُنیا کا رُخ اسی لیےکیا کہ اُن کاادھورا سپنا پورا کرسکوں۔
س:آپ پر الزام ہے کہ آپ نے بھارتی ادا کاروں کی نقل کرتے ہوئے ’’سُپراسٹار‘‘ میں شرٹ لیس پرفارمینس دی، کیا یہ درست ہے؟
ج:اصل میں مَیں نے پروڈیوسر سے کہا تھا کہ فلم کا ایک گانا ذرا ہٹ کر ،نئے انداز سےفلمایا جائے۔اجازت ملنے پراس گانے کے لیے سال بَھرخُوب محنت کی ۔فٹنس ایکسپرٹ، فیصل شفیع سے تربیت لی۔ کوئی انجیکشن نہیں لگوایا،خود کوقدرتی طریقے سےاسمارٹ لُک د یااور یہ سب فلم میں ہیرو کا نیا انداز متعارف کروانےکے لیے کیااورشُکر ہے کہ یہ تجربہ کام یاب بھی رہا۔
س:گروپنگ پر یقین رکھتے ہیں؟
ج:ہرگزنہیں،کیوں کہ میرا مانناہے کہ اگر صاف نیّت سے آگے بڑھتے رہیں، تو کوئی آپ کا راستہ نہیں روک سکتا۔
س:فیلڈ کی وجہ سے ذاتی زندگی متاثر ہوئی؟
ج:بہت متاثر ہوئی ۔یہی دیکھ لیں کہ فلم’’سُپراسٹار‘‘ کے لیے مَیں نے سارا سال کوئی دوسرا کام نہیں کیا، صرف فلم ہی پرفوکس رکھا۔ شوبز سے وابستہ افراداپنے کام کی وجہ سے اپنےوالدین تک کو وقت نہیں دے پاتے۔ ہم عام افراد کی طرح شاپنگ نہیں کرسکتے، عوامی جگہوں پر کچھ کھا پی نہیں سکتے۔پھر بیرونِ مُلک بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے،کیوں کہ تب ہم پاکستان کے ثقافتی سفیر ہوتے ہیں۔
س:ماہرہ خان کے مدِّمقابل ہیرو کاسٹ ہونا آپ کے لیے کتنا بڑا چیلنج تھا؟
ج:مجھ پر دباؤ بہت تھا،اسی لیے مَیں نے اپنا کردار جان دار بنانے کے لیے دِن رات محنت کی، تھیٹر اکیڈمی سے خصوصی تربیت بھی حاصل کی،تاکہ بَھرپوراداکاری کرسکوں۔
س:آپ دراز قد ہیں، جب کہ فلموں میں آپ کے ساتھ جو ہیروئنز کاسٹ کی گئیں، ان کا قد چھوٹا تھا، اس کی کوئی خاص وجہ؟
ج:(قہقہہ لگاتے ہوئے) اس کا جواب تو پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز بہتر انداز میں دے سکتے ہیں۔ہاں ،حالیہ فلم میں ماہرہ خان کا قدچھوٹانہیں تھا۔ ویسے بھی اب چھے فٹ کی ہیروئن تو تلاش کرنے سے بھی نہ ملے۔
س: آج کل بڑی اسکرین کے اداکارٹی وی ڈراموں میں کام کررہے ہیں، تو آپ نے کیوں نہیں کیا؟
ج: مَیں چاہتا ہوں کہ میری پہچان فلم سے ہو، اس لیے پورافوکس فلم انڈسٹری ہی پرہے۔
س:اب تک کتنی فلموں میں،کن کن اداکاراؤں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھا چُکےہیں؟
ج: فی الحال تو021،جانان، یلغار،رنگ ریزہ اور سُپر اسٹار میں کام کیا ہے،مگریہ سب مختلف گروپس کی فلمیں ہیں۔رہی بات ہیروئنز کی تو’’جانان‘‘ میں ارمینہ رانا خان، ’’رنگ ریزہ‘‘ میں عروہ حسین اور ’’سُپراسٹار‘‘ میں ماہرہ خان میری ہیروئن تھیں۔
س:آنے والے دِنوں میں خود کو کہاں دیکھ رہے ہیں ؟
ج:مَیں ہالی وُڈ میں پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں اوریہی میرا خواب بھی ہے۔
س: کس ہیروئن سے کیمسٹری ملتی ہے؟
ج: ماہرہ خان کے ساتھ کام کرکے بہت اچھا لگا۔اُن سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا، کیوں کہ وہ بالی وُڈ کے کنگ، شاہ رُخ خان سمیت پاکستانی کے معروف ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز اور انٹرنیشنل برانڈز کے ساتھ کام کرچُکی ہیں،جب کہ زیادہ دوستی ارمینہ رانا خان سےہے۔
س: آپ کی صُبح کب ہوتی ہے؟
ج:اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ مَیں سوتا کب ہوں۔دراصل جب کام کا دبائو ہوتا ہے، تو صُبح تک شوٹنگ میں مصروف ہوتا ہوں اور جب کام نہیں ہوتا، تو جلدی سو جاتا ہوں۔ پھر صُبح جلداُٹھ کرجِم چلا جاتا ہوں۔
س:آٹوگراف دینااچھا لگتاہے یا سیلفی بنوانا ؟
ج:آج کل سیلفی کا دَور ہے،اس سےآسانی بھی ہوتی ہے۔ویسے آٹوگراف کا اپنا ہی الگ مزا ہے۔
س:زندگی کا یادگار ترین لمحہ؟
ج: مرحومہ بہن کے ساتھ گزارے آخری دو تین ماہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
س:زندگی میں سب سے زیادہ کس کے احسان مند ہیں؟
ج: والدین اور پھرکچھ دوستوںکا، جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا۔خاص طور پر مومنہ، منیر حسین اورجمیل بیگ کے نام لینا چاہوں گا، جنہوں نے بہت سپورٹ کیا۔
س:زندگی کا کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟
ج: نوجوانی کا دَور،جب کالج میں پڑھتا تھا ،کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔ نصابی،غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لیتا اورہر وقت خوش باش رہتا تھا۔
س: عشق ،محبّت کا روگ بھی پالا یا نہیں؟
ج:جی ہاں، عشق کیا،مگر ناکام ثابت ہوا اوربس، میرا دِل ٹوٹا گیا۔
س:کام یاب زند گی کا سُنہرا اصول کیا ہے؟
ج: ہر ایک سےبہترین سلوک،مگر کسی سے توقعات وابستہ نہ رکھنا۔
س:پریشانی سے نکلنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟
ج:قریبی دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا ہوںاور ان سے مشورے بھی کرلیتا ہوں۔
س:کس کے کاندھے پر سَر رکھ کر رونے کو دِل کرتا ہے اورکوئی ایسی جگہ، جہاں جا کر بہت سُکون ملتا ہو؟
ج:مرحومہ بہن کے اور اِسی لیےقبرستان میں اُن کی قبر پر جاکر بہت سُکون ملتا ہے۔
س:فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟
ج:زیادہ ترکرکٹ کھیلتا ہوں ۔کبھی مختلف مُمالک کی سیر کو بھی نکل جاتا ہوں۔ مجھے سفر کرنا اورکھانا پکانااچھا لگتاہے۔بہت مزے دار کھانے بناتا ہوں اور خُوب انجوائے کرتا ہوں۔
س:زندگی میں کسی اور مُلک جا بسنے کا موقع ملے، تو کہاں رہنا پسند کریں گے؟
ج: لندن ،کیوں کہ میرا بہت وقت وہیں گزرا ہے۔
س:شادی کا کب ارادہ ہے؟
ج:ایک لڑکی پسند کرلی ہے، جلد ہی اُس سے شادی کرلوں گا۔
س:شاپنگ کا شوق ہے،بھاؤ تاؤ کرتے ہیں؟
ج: شاپنگ بہت شوق سے کرتا ہوں،مگر بھاؤ تاؤ کرنا نہیں آتا۔
س:سال گرہ مناتے ہیں؟
ج: جی بالکل،مگر صرف فیملی اور قریبی دوستوں کے ساتھ ۔
س:شعر و ادب سے کوئی لگاؤ رکھتے ہیں؟
ج:شعر و ادب سےکہیں زیادہ شغف آرٹ ،خاص طور پر پینٹنگ، ڈرائنگ اور آرکیٹیکچر سے ہے۔
س:کس بات پر غصّہ آتا ہے؟ اور ردِّ عمل کیا ہوتا ہے؟
ج:جھوٹ اور دھوکا دہی پر غصّہ آتا ہے۔غصّے کی حالت میں خاموشی اختیار کر لیتا ہوں۔
س:فیصلے کرتے وقت دِل کی سُنتے ہیں یا دماغ کی؟
ج:مَیں دِل ہی کی سُنتا ہوں اور نتیجہ بھی مثبت آتا ہے۔
س:شہرت نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتّب کیے؟
ج: مَیں پہلے بھی سادہ سا آدمی تھا اور اب بھی ویسا ہی ہوں۔
س:دولت، شہرت اور محبّت میں سے آپ کا انتخاب؟
ج:میرا انتخاب ہمیشہ محبّت ہی رہے گی۔
س:انسان قسمت خود بناتا ہے یا قسمت انسان کو؟
ج: میرا ماننا ہے کہ انسان اگرمحنت کرے تو وہ قسمت کی جانب تیزی سے سفر کرتا ہے۔ویسے، کبھی کبھی محنت سے زیادہ نصیب بھی کام کرجاتا ہے۔
س:اسٹائل وقت کے ساتھ بدلتے ہیں یا اپنی پسند سے؟
ج:مَیں اپنا اسٹائل خود بناتا ہوں، برانڈز کے چکر میں نہیں پڑتا۔
س:لالی وُڈ کےکون سے اداکار، اداکارائیں پسند ہیں؟
ج:وحید مُراد مرحوم، ندیم ، شان اور اداکاراؤں میں شبنم، زیبا اوربابرہ شریف۔
س:نئی فلموں پر اعتراض کیا جارہاہے کہ وہ فلمیں کم ،ڈراما زیادہ لگتی ہیں،تو کیا ایسا ہی ہے؟
ج:چوں کہ ابھی فلم انڈسٹری کا ایک نیا دَور شروع ہوا ہے،توتو قع ہے کہ آگے جا کر فلمیں مزید بہتر انداز میں بنیں گی۔
س:موجودہ فلمی دَور میں بہترین ہدایت کار کون ہے؟
ج:مجھے ذاتی طور پر احتشام الدّین اچھے لگتے ہیں، بلال لاشاری بھی کمال کے ڈائریکٹر ہیں۔
س:نئی فلمی ہیروئنزمیں کون زیادہ اچھا کام کر رہی ہیں؟
ج:ماہرہ خان سے کافی متاثر ہوں،جب کہ مہوش حیات اور صبا قمر بھی اچھا کام کر رہی ہیں۔
س:موسیقی سے کس حد تک لگائو ہے،کون سے گلوکار پسند ہیں؟
ج:جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ مجھے سدابہار گیت بہت اچھے لگتے ہیں،اسی لیےزیادہ تر ستّر، اسّی کی دہائی کے گانے سُنتا ہوں۔اور گلوکاروں میں استاد نصرت فتح علی خان(مرحوم)، راحت فتح علی ، عابدہ پروین اور عاطف اسلم پسند ہیں۔
س:پرستاروں کے لیے کوئی پیغام؟
ج:صرف یہی کہ مجھے اپنی دُعائوں میں یاد رکھیں۔