Time 19 نومبر ، 2019
پاکستان

سانحہ تیزگام: لاپتہ افراد اور میتوں کی تعداد میں فرق حکام کیلئے مسئلہ بن گئی

ریلوے حکام کے مطابق تین بوگیوں میں تقریباً 200 سے زائد افراد سوار تھے،فوٹو: اے ایف پی

سانحہ تیز گام کو 20 روز ہوچکے ہیں تاہم ہولناک سانحے کے بعد سے اب بھی 14 افراد لاپتہ ہیں  جب کہ میتیں بھی صرف 3 باقی ہیں جس کے باعث ورثاء  شدید کرب کا شکار ہیں۔

31 اکتوبر کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس کی تین بوگیوں میں ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے قریب گیس سیلنڈر پھٹنے سے آگ لگ گئی تھی جس کے نتیجے میں 74 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

ریلوے حکام کے مطابق تین بوگیوں میں تقریباً 200 سے زائد افراد سوار تھے ،حادثے کے بعد بوگیوں سے کئی افراد کی جلی ہوئی لاشیں نکالی گئیں جن میں سے کئی لاشوں کے ٹکڑے ملے تھے۔

آگ لگنے سے جاں بحق ہونے والے 58 افراد کی شناخت نہ ہونے پر ڈی این اے کرانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ حادثے میں متاثر ہونے والے مسافروں میں سے اکثریت کا تعلق سندھ کے ضلع میر پور خاص سے تھا۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کے بعد میتیں ورثاء کے حوالے کر دی گئیں جس میں 30 افراد کی میتیں میرپور خاص منتقل کی گئی تھیں تاہم اب بھی میر پور خاص کے متعدد رہائشی اپنے پیاروں سے متعلق لاعلم ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس ہولناک سانحہ میں لاپتہ افراد کی تعداد اور ملنے والی لاشوں کی تعداد میں فرق ان کے لیے ایک مسئلہ بن چکاہے۔

ڈپٹی کمشنر میرپورخاص زاہد میمن کے مطابق تیزگام سانحے میں اس وقت لاپتا افراد کی کُل تعداد 14 ہے  جن میں سے9 افراد کا تعلق ضلع میرپورخاص سے ہے۔

زاہد میمن کے مطابق  رحیم یار خان کے اسپتال میں اس وقت صرف 3 میتیں ہیں جن کے لواحقین کا پتہ نہیں چل سکا، لواحقین کو رحیم یار خان بھیج کر ایک کوشش اور کریں گے۔ پھر بھی لاپتہ افراد کا پتہ نہ چل سکا تو قانونی اور شرعی طور پر معاملے کو دیکھیں گے۔

غمزدہ لواحقین کا کہنا ہے کہ  ان کے پیاروں کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں حتمی طورکوئی کچھ بتانےکو تیار نہیں،ان کے شب و روز کس اذیت میں گزر رہے ہیں اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک لاپتہ افراد کے زندہ ہونے کے کوئی شواہد ملے اور نہ ہی ان کی موت کی حتمی تصدیق کرسکتے ہیں، اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے معاملے کے قانونی اور شرعی پہلوؤں پر کام کیا جارہا ہے۔

مزید خبریں :