سوا کروڑ پاکستانی بیت الخلا کی سہولت سے محروم: رپورٹ

پاکستان میں 94 فیصد عوام کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر ہے: رپورٹ

اسلام آباد: دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں 19 نومبر (منگل) کو ’’ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا گیا۔

پاکستان میں 94 فیصد عوام کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر ہے،2017۔2018 تک پاکستان میں صرف 6 فیصد عوام کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت نہیں جب کہ پاکستان کے شہری علاقوں میں 99 فیصد شہریوں کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر ہے اور ایک فیصد کے پاس نہیں ہے۔

دہی علاقوں میں 91 فیصد شہریوں کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہے جب کہ 9 فیصد کے پاس نہیں۔

پاکستان میں اؤسطاً 1 اعشاریہ 3 عوام کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت ہے اور شہری علاقوں میں 1 اعشاریہ 4 عوام الناس کو ٹوائلٹ کی دسترس ہے، دیہی علاقوں میں تقریباً 13 اعشاریہ 2 ملین افراد کے پاس اؤسطا 1 اعشاریہ 2 فیصد عوام کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت ہے جب کہ 20 لاکھ عوام کے پاس یہ سہولت نہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ ٹوائلٹ ڈے پر دنیا میں پانی، صفائی اور حفظان صحت پر خصوصی روشنی ڈالی گئی جس کے تحت 2 اعشاریہ 2 ارب لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں، 4 اعشاریہ 2 ارب لوگ بغیر حفظان صحت کے اصولوں کے تحت نہیں رہ رہے جب کہ 3 ارب لوگ ہاتھ دھونے کی سہولت سے محروم ہیں۔

2015 تک ایک ارب لوگ گھروں سے باہر جا کر حاجت رفا کرتے تھے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں میں بیماریاں پھیلتی ہیں اور لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں تھیں، اس صورتحال کی وجہ سے اقوام متحدہ کو اس کے خاتمے کے لئے کوششیں شروع کرنی پڑیں جس میں دنیا بھر میں کامیابی ہوئی، صفائی ستھرائی انسان کا بنیادی حق ہے جو بہتر مستقبل کی گارنٹی فراہم کرتا ہے۔

خاص طور پر عورتوں اور بچوں کو، یونیسیف نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر ورلڈ ٹوائلٹ ڈے 19 نومبر کو منایا، اس سال ورلڈ ٹوائلٹ ڈے کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ ملک کے ہر شخص کو بلا امتیاز تمام سہولیات میسر ہوں جو کہ صاف اور ہرا بھرا پاکستان کی مہم سے مطابقت رکھتا ہے۔

انسانی حقو ق کی تنظیم کے مطابق صفائی ستھرائی کی عدم فراہمی دیگر افراد پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے، 1978 میں طے پائے جانے والا آلما ،اٹا میں قرار پایا تھا کہ بیماریوں سے بچاؤ کے لئے پرائمری ہیلتھ کیئر پروگرامز کی ضرورت ہے، بصورت دیگر کئی طرح کی بیماریوں کا دباؤ زندگی میں کارکردگی پر بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت کے مانیٹرنگ پروگرام 2017 کے مطابق پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی کے بارے میں کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 40 ملین لوگ غیر محفوظ طریقے اور صفائی ستھرائی سے لیٹرین استعمال کرتے ہیں جس سے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہے، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے عورتوں اور بچوں میں بیماریاں پھیلتی ہیں بیماریوں میں ڈائریا، پولیو، خسرہ جیسی بیماریوں شامل ہیں اور ٹوائلٹ کی عدم مودگی کی وجہ سے ہر سال سات لاکھ پچاس ہزار بچے پیٹ کی بیماریوں اور انفیکشن سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

صفائی کی خراب صورتحال کے نتیجے میں گٹر کا پانی عام طور پر صاف پانی میں شامل ہوجاتا ہے آلودہ پانی صوبہ پنجاب کے دریائے راوی میں بہہ جاتا ہےصاف پانی میں آلودگی کی وجہ سے لاتعداد بیماریاں پھیلتی ہیں، پاکستان میں 22 اعشاریہ 5 فیصد بچے ہر سال ڈائریا سے جاں بحق ہوجاتے ہیں، 2018 کی ڈیموگرفک ہیلتھ رپورٹ کےمطابق ڈائریا ان خاندانوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں حفظان صحت کی عدم موجودگی ہوتی ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق 37 اعشاریہ 6 فیصد بچے کم عمری میں عدم نش ونماکا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ 23 اعشاریہ 1 فیصد بچے وزن میں کمی کا شکار ہوتے ہیں ان تمام خامیوں کا تعلق عدم صفائی سے ہے، ٹوائلٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ عورتیں اور بچے شکار ہوتے ہیں کیونکہ رفع حاجت کے لئے انہیں رات کا انتظار کرنا پڑتا ہے، بیمار عمر رسیدہ افراد بھی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی انا کو دھچکا لگتا ہے جہاں رفع حاجت کی مناسب جگہ نہ ہو۔

ورلڈ بینک کےمطابق خراب صحت و صفائی کی صورتحا ل کی وجہ سے پاکستان میں 3 اعشاریہ 94 فیصد جی ڈی پی میں کمی کا باعث ہے جو کہ سالانہ 5 اعشاریہ 7 ارب ڈالر(تقریباً 8 اعشاریہ 8؍ کھرب پاکستانی روپے ) ہے۔

صحت و صفائی کی خراب صورتحال کی وجہ سے ورکنگ کلاس کے لوگوں پر نہائت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں،پاکستان کو 2030 تک یومیہ 820 لیٹرین بنانے کی ضرورت ہے تاکہ صحت و صفائی کے اہداف حاصل ہوسکیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2000 تک صورتحال خراب تھی۔ بھارت میں کلین انڈیا مہم کے دوران 2014 بھارت کی وزارت صاف پانی نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ٹوائلٹ کی کوریج 99 اعشاریہ 22 فیصد تک ہوئی ہے۔

الجزیرہ کے مطابق ، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار کمپیشونیٹ اکنامک سروے کھلے عام رفاع حاجت کا تناسب 26 فیصد کم ہوا ہے۔

مزید خبریں :