25 نومبر ، 2019
نہیں،گابا ٹیسٹ میں پاکستان کی ہار سے کم از کم ہمیں کوئی خاص مایوسی نہیں ہوئی۔
آسٹریلیا کے اس دورے سے قبل، پاکستان کی بولنگ لائن کی سلیکشن اور بیٹسمینوں کی فارم سے کہیں زیادہ ہمیں ماضی کے آسٹریلوی دوروں کی یاد نے بے چین کیے رکھا تھا۔ ہمیں یہ یاد تھا کہ ماضی کی کئی طاقتور اور تجربہ کارپاکستانی کرکٹ ٹیمیں بھی آسٹریلیا میں کچھ خاص کارہائے نمایاں انجام نہ دے سکیں تویہ تو پھر نسبتاً نئی ٹیم ہے۔ سو جناب پہلا ٹیسٹ ہم اننگ اور 5رن سے ہار گئے۔
پہلی اننگز کے ہمارے 240رنز کے جواب میں آسٹریلیا نے ہماری بولنگ لائن کی ناتجربہ کاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 580رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا جس کو سر کرناہمارے ناتواں بیٹسمینوں کے بس کی بات ہرگز نہ تھا۔
سو میچ ہمارے ہاتھ سے اس وقت ہی نکل گیا تھا جب ہم نے ٹیسٹ کے دوسرے سیشن میں جلدی جلدی پانچ وکٹیں کھو دی تھیں اور اس وقت تو اس ہار پرمہر تصدیق ثبت ہو گئی جب ہم لاکھ کوششوں کے باوجود آسٹریلوی بیٹسمینوں کو تیزی کی ساتھ رنز بناتے نہ روک سکے۔
اتنا ضرور ہے کہ دوسری اننگز میں بابر اعظم کی خوبصورت سنچری اور وکٹ کیپر رضوان کے تیز رفتار 95رنز نے کچھ دیر کے لیے ہمارا خون گرمائے رکھا۔
ٹیسٹ کے آغاز سے قبل، ٹیم میں عباس کی سلیکشن نہ ہونے اور افتخارکے ٹیم میں لیے جانے پر بہت باتیں ہوئیں۔ یہ باتیں یا اعتراضات میچ کے دوران درست ثابت ہوتے ہوئے بھی لگے۔ بقول وقار یونس، پاکستان نے فارم میں نہ ہونے پر عباس کو باہر بٹھایا۔ افتخار بھی اپنی پرفارمنس سے کسی کو متاثر نہ کرسکے۔
بیٹنگ میں وہ ایک پارٹ ٹائم بیٹسمین اور بولنگ میں پارٹ ٹائم بولر لگے۔ نجانے کب ہم ٹی ٹوئنٹی کی پرفارمنس کی بنیاد پر ٹیسٹ اور پانچ روزہ میچز میں کارکردگی دکھانے پر ون ڈے میں کھلاڑیوں کو لانے لے جانے کا سلسلہ ختم کریں گے۔
قصہ مختصر اگر ہم پاکستانی ٹیم کی پہلے ٹیسٹ میں پرفارمنس کو تین نسبتا ًبہتر اور تین مایوس کن پرفارمنس میں تقسیم کریں تو گوشوارہ کچھ یوں بنتا ہے۔
بابر اعظم:
بابر اعظم کے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز اتنا متاثر کن نہ تھا۔ سال 2016 میں 5 ٹیسٹ میں وہ 32 کی اوسط سے 291 رنز بنا سکے،
سال 2017میں 6ٹیسٹ میں وہ 16کی اوسط سے 184رنز بنا سکے، اس کے بعد ان کی ٹیسٹ بیٹنگ میں نکھار آنا شروع ہوا اور سال 2018میں 8ٹیسٹ میں انہوں نے 56کی اوسط سے 616 رنز بنائے۔ رواں سال یہ ان کا تیسرا ٹیسٹ تھا اور وہ 41کی اوسط سے 249رنز بنا چکے۔
گابا میں ان کی یہ سنچری ان کے ٹیسٹ بیٹنگ اسٹائل اور ٹمپرامنٹ میں بہتری کا واضح ثبوت ہے۔ پہلی اننگز کے برعکس انھوں نے دوسری اننگز میں شروع سے ہی بڑے شاٹ کھیلنے سے پرہیز کیا اور اوور پچ یا شارٹ بال پر ہی حملہ آور ہوئے۔ انھوں نے اننگز میں فاسٹ بولرز اور اسپنرز کے خلاف یکساں مہارت کے ساتھ بیٹنگ کی۔
محمد رضوان:
رضوان نے اس میچ میں مجموعی طور پر 132رن بنائے جس میں پاکستان کے کسی بھی وکٹ کیپر کی جانب آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلوی سرزمین پر سب سے زیادہ 95رنز کی اننگز بھی شامل ہے۔ رضوان، کپتان سرفرازکو ہٹا کر ٹیم میں لائے جانے کی وجہ سے بہت پریشر میں تھے لیکن دونوں اننگز میں انھوں نے تیز رفتار اور جارح مزاج بیٹنگ کرکے پاکستان کی ناتواں بیٹنگ لائن کو کسی قدر سہارا دیا۔
واضح رہے کہ یہ ان کا دوسرا ہی ٹیسٹ ہے اور گابا میں کسی بھی بیٹسمین کی جانب سے ایسی اننگ آنے والے وقتوں میں اس کی جانب سے مزید اچھے اسکور سامنے آنے کا پتہ دیتی ہے۔
اسد شفیق،شان مسعود:
یہاں شان مسعود اور اسد شفیق میں ٹائی ہے۔ میچ کی پہلی اننگز میں اسد شفیق نے اس وقت 76رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی جب کوئی اور کھلاڑی اتنی مہارت اور صبر سے آسٹریلوی اٹیک کا سامنا نہ کرسکا تھا۔
دوسری جانب شان مسعود نے دونوں اننگز میں چھوٹی لیکن اچھی اننگز کھیلیں، بطور ٹیسٹ اوپنر ان میں وہ ٹمپرامنٹ اور مہارت دکھائی دی جس کی شاید پاکستان کو تلاش ہے لیکن انہیں اپنے اسکورز میں تسلسل لانا ہوگا اور جلد کوئی بڑی اننگز کھیلنا ہو گی۔
اسد شفیق کو دوسری اننگز میں بابر اعظم سے اوپر بیٹنگ کرائی گئی اور یہ فیصلہ کارآمد ثابت نہ ہوا۔ اسد اور اظہر پاکستان ٹیم میں کافی عرصے سے کھیل رہے ہیں اور ان کوبطور سینئر پلیئر ٹیم کی ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر اٹھانا ہوں گی۔ مصباح اور یونس کے بعد پوری ٹیم ان کے تجربے اور صلاحیت سے استفادہ کرنا چاہتی ہے۔
حارث سہیل:
حارث سہیل اپنے شاٹس کے لحاظ سے ایک نہایت مکمل اور کار آمد بیٹسمین ہیں۔ ان کی حالیہ کارکردگی شاید ان کی صلاحیتوں کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کررہی لیکن ان کا مسلسل ایک ہی بال پر ایک ہی جیسا شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہو جانا مایوس کن ہے۔
خصوصاً اس میچ میں تو ایسا لگا جیسے اسٹارک نے انہیں ”پکڑ“ لیا ہے۔ 11ٹیسٹ میچوں میں ان کا اوسط تقریباً 37رن ہے جو یقیناً ان کے شایان شان نہیں۔ وہ ایک کارآمد پارٹ ٹائم بولر بھی ہیں لیکن ان کو اور ٹیم منیجمنٹ کو ان کے ساتھ بیٹھ کر اٹھتی ہوئی بال پر جسم سے دور شاٹ مارنے جیسی ان کی بری عادت پر قابو پانا ہو گا۔
افتخاراحمد:
اپنے کیریئر کے دو ٹیسٹ میچوں میں افتخار کی بیٹنگ ایوریج صرف 3.6 ہے۔ یقیناً یہ اوسط یہاں سے مزید بہتر ہی ہو گی لیکن افتخار احمد اپنی دونوں اننگ میں جس طرح آؤٹ ہوئے اس سے کوئی اچھا تاثر نہیں لیا جاسکتا۔
ان کی بولنگ میں بھی کوئی خاص ”اسپارک“ نظر نہیں آیا۔ ان کو کئی دوسرے اسپیشلسٹ کھلاڑیوں پر ترجیح بھی دی گئی۔ ان کی اس کارکردگی کے باعث اب ان کی دوسرے ٹیسٹ میں شمولیت کے آگے ایک سوالیہ نشان سا لگا نظر آتا ہے۔
عمران خان، یاسر شاہ:
عمران خان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اچھے ”ٹچ“ میں ہیں اورعباس کو ٹیم میں نہ لیے جانے کے بعد ان سے اچھی کارکردگی کی امید کی جارہی تھی لیکن وہ کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ بہت سے مواقع پر ایسا لگا کہ اس پچ پر جس تیزی کی ضرورت ہے وہ عمران خان میں نہیں۔
دوسری جانب یاسر شاہ نے میچ میں اچھی بیٹنگ کے علاوہ آسٹریلیاکی واحد اننگز میں چار وکٹ تو لیں لیکن ان کے حصول میں 200 سے زائد رن دے کر وہ ایک ایسا ریکارڈ بنا گئے جو شاید کوئی بھی بولر اپنے نام نہیں کرانا چاہے گا۔ یہ تیسرا موقع ہے کہ یاسر نے ایک اننگ میں 200 سے زائد رنز دیے ہیں۔
بہرحال ان کی جانب سے بولنگ میں اچھی کارکردگی کی توقع ہے چونکہ وہ پاکستان بولنگ یونٹ کے سب سے تجربہ کار اور ماہر بولر ہیں۔ پاکستان کے پاس ان کے علاوہ زیادہ آپشنز نہیں۔
آسٹریلیا کے بولنگ یونٹ نے مہارت اور پلان کے مطابق بولنگ کرکے پاکستان کی بیٹنگ کی کمزوریوں کو واضح کردیا ہے۔
گڈ لینتھ اور اٹھتی ہوئی بالوں کو ہمارے بیٹسمین ہر بار مہارت سے کھیلنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بیٹنگ اور بولنگ دونوں شعبوں میں بہت جان مارنا ہو گی۔
وقار یونس اور مصباح کی مہارت اور تجربہ اب تک گراؤنڈ میں پاکستان کے کھیل سے ویسے ظاہر نہیں ہوسکے جس کی توقع کی جارہی تھی۔ اگلے ٹیسٹ میں ہو سکتا ہے امام الحق اور عباس کی صورت میں پاکستان کو کچھ تبدیلیاں بھی عمل میں لانا پڑیں۔
ایڈیلیڈ، گابا کی طرح جاندار پچ تو نہیں ہو گی لیکن یقیناً وہاں پاکستان کے پاس غلطی کی گنجائش بھی نہیں۔ ہمیں پاکستان سے جیت نہیں تو کم از کم کارکردگی میں واضح بہتری کی امید تو رکھنا چاہیے۔