10 دسمبر ، 2019
وہ جب بولتی تھی تو بولتے تھے کیوں اتنا بولتی ہے، کیا باپ کو مزید پریشانیوں میں لائے گی۔ اب جب وہ نہیں بولتی تو بولتے ہیں کہ بولتی کیوں نہیں ،کیا باپ کی عزت کی پروا نہیں۔
یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ہم دنیا کی اُس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی حال میں بھی خوش رہنا نہیں جانتی جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو ہم کہتے تھے کہ یہ اچھا وزیر اعظم نہیں اور آج جب وہ وزیراعظم نہیں تو ہم کہتے ہیں کہ کاش نواز شریف ہی وزیراعظم ہوتا۔
جب نواز شریف وزیراعظم تھا تو لوگ کہتے تھے کہ بس اب یہ وزارت عظمی ختم ہونے والی ہے اور جب وہ ختم ہوگئی تو کہنے لگے کہ ہائے کیا ظلم ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو اس طرح نکال باہر کیا۔
بس یہ ہی وطیرہ ہے ہماری قوم کا اور اسی پر سب کچھ چل رہا ہے۔ جو ہے اُس کی عزت نہیں اور جو نہیں ہے اُس کی بار بار طلب۔ آئیں ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ مریم نواز کیوں خاموش ہیں کیا کسی ڈر میں ہیں یا کسی خوف میں کیا کوئی ڈیل ہے یا پھر ڈھیل ہے حکومت وقت کو سنبھلنے کے لیے۔
کیا واقعی کچھ ایسا ہے کہ جس کی پردہ داری ہے یا بس مصلحت اور رواداری ہے ۔چلیں پہلے آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ کون ہے مریم نواز تاکہ پھر آپ جان سکیں کہ کیوں بولتی تھی اور کیوں خاموش ہے۔
مریم نواز کلثوم نواز کی بیٹی ہے وہ کلثوم نواز جس کو وہ بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنے ملک اور عوام سے وعدہ نبھانے پاکستان آئی تھی ۔
اب آپ کو یہاں سے بتاتے ہیں کہ کیوں مریم نواز اتنا بے خوف بولتی تھی کہ اپنی بیمار ماں کو کومے کی حالت میں چھوڑ کر پاکستان آئی، کیوں کہ یہ اُس کا اور اُس کے باپ کا وعدہ تھا پاکستانی عوام سے کہ میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا، چاہے اس کی جو بھی قیمت دینا پڑے۔ مریم نواز اور اُس کے باپ نے یہ وعدہ پورا کیا ۔
مریم نواز کی آواز میں ایک جرات تھی ایک طاقت تھی اور ہمت تھی۔ پاکستان آتے ہوئے جب دوحا ائیرپورٹ پر شریک سفر صحافیوں سے گفتگو کی تو بس یہی کہا کہ میں اپنے عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے جارہی ہوں کیوں کہ وہ میرے منتظر ہیں مگر افسوس مریم نواز نے تو وعدہ پورا کردیا عوام نہ کرسکے اور جب مریم نواز نے لاہور ائیرپورٹ پر اُتر کر چاروں طرف دیکھا تو نہ چچا نظر آیا نہ پھوپھا نہ خالو اور نہ ماموں غرض کے جتنے رشتے دار تھے اور جتنے طرف دار تھے سب کہیں دور کسی تماشے میں محو تھے اور تنہا مریم اپنے باپ کے ساتھ ائیرپورٹ پر کھڑی تھی وہ ٹوٹ گئی مگر اپنے آپ کو سنبھالے رکھا اور یہاں اُسے باپ سے بھی جُدا کردیا گیا اور ایک الگ جہاز میں اسلام آباد پہنچاکر پابند سلاسل کردیا ۔
مریم اُس عوام کے بارے میں بس سوچتی ہی رہ گئی جو کہتے تھے قدم بڑھاؤ مریم نواز ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر وہ تو کسی اور کے ساتھ ہی نکل گئے۔ بہرحال اسی دوران جیل میں مریم کو اپنی ماں کے دنیا سے گزرجانے کی خبر ملی اور یہ زخمی عورت مزید زخمی ہوگئی پیرول پر رہائی کے دوران بس لوگوں کی شکل ہی تکتی تھی کچھ کہتی نہیں تھی کیوں کہ زخم سارے ہرے تھے۔
مریم جیل گئی اور پھر رہا ہوگئی اور اپنی طاقت اور ہمت کو دوبارہ سے یکجا کیا تاکہ باپ کی آواز بن سکے اور انصاف دلاسکے۔ وہ اپنے گھر سے نکلی اور گھر گھر جانا شروع کردیا باپ کا پیغام پھیلانا شروع کردیا۔
ہزاروں لاکھوں اُس کے پیچھے پیچھے پھر چل دیے اور پارٹی کی دسترس اُس کےپاس آگئی۔ وہ سب جو لاہور ائیرپورٹ کے اردگرد بھی نظر نہیں آئے تھے اب پھر مریم کے آس پاس ہر وقت دم بھرنے لگے۔
ایوانوں میں ہلچل مچ گئی اور حکمراں پچھتاتے رہے کہ یہ کیسے بچ گئی پھر دوبارہ فیصلے ہوئے اور راستے نکالے گئے کہ یہ پھر جیل جائے ورنہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائےگا۔
کیس سچے ہیں یا جھوٹے اس کا فیصلہ کوئی اور نہیں بس عدالتیں ہی کرسکتی ہیں مگر مریم پھر گرفتار ہوگئی اور اُن وقتی وفاداروں نے پھر راستہ بدل لیا۔ مریم کو سب کی خبر تھی کیونکہ جتنے چھپانے والے تھے اُتنے ہی بتانے والے تھے اور پھر مریم کو جیل میں یہ خبریں ملنا شروع ہوگئیں کہ کس طرح وہ پتھر جنھیں مریم کے بابا نے دھڑکنیں عطا کی تھیں زباں ملنے پر انھی پر برسنے لگے۔
کس طرح پارٹی کے اہم راز اہم میٹنگز کے دوران ہی خفیہ ٹیکنالوجی کی مدد سے مریم کے اپنوں ہی کے ذریعے مخالفین تک پہنچنے لگے اور پارٹی کو کمزور کرنے لگے۔
بس اس دھوکے کے بعد مریم کی طاقت جیسے کہیں جم سی گئی اور اُس نے خاموشی کو گلے لگالیا اور ساری توجہ اپنے باپ پر مرکوز کردی جبھی تو ضمانت پر رہا ہوتے وقت کہا کہ سیاست تو پھر بھی ہوتی رہے گی ماں باپ دوبارہ نہیں ملتے، ماں کو میں کھوچکی ہوں باپ کو کھونا نہیں چاہتی ،اس لیے بس اب پہلے اُن کی صحت دیکھوں گی پھر سیاست۔
مگر افسوس وہ سارے دھوکہ دینے والے آج بھی پارٹی پر قابض ہیں جبھی تو مریم نے اپنے چچا کو بھی دو ٹوک کہہ دیا کہ بے شک آپ وزیراعظم بن جائیں مگر نئےالیکشن سے، اس اسمبلی سے نہیں کیونکہ یہ ممبران تو نواز شریف کے نام سے ووٹ لیکر آئے ہیں اور نواز شریف سودے بازی نہیں کرتا ،جبھی تو آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی اکائی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مریم کو انصاف چاہیے اور مریم کی صفوں میں موجود کچھ دوستوں کو اقتدار ۔۔۔
یہ آرٹیکل روزنامہ جنگ میں 10 دسمبر 2019 کو شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔