12 دسمبر ، 2019
سندھ ہائیکورٹ نے دوران پرواز پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کے اے ٹی آر طیاروں کے انجن بند ہونے سے متعلق وفاقی حکومت اور سول ایوی ایشن سے جامع جواب طلب کرلیا۔
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس آغا فیصل پر مشتمل 2 رکنی بینچ کے روبرو دوران پرواز پی آئی اے کے اے ٹی آر طیاروں کے انجن بند ہونے سے متعلق سماعت ہوئی۔
درخواست گزار اقبال کاظمی نے کہا کہ پی آئی اے کی 60 سالہ تاریخ میں 55 طیارے حادثات کا شکار ہوچکے ہیں۔ 7 دسمبر 2016 کو PK-661 بھی انجن بند ہونے کی وجہ سے حادثہ کا شکار ہوا۔ حادثے میں مذہبی اسکالر جنید جمشید سمیت 47 افراد جاں بحق ہوئے۔ حادثے کےبعد انکوائری کی گئی جس کا نتیجہ اب تک نہیں نکلا۔
دوران سماعت شہید کیپٹن احمد منصور جنجوعہ کی والدہ کمرہ عدالت میں رو پڑیں۔ روتے ہوئے شہید کیپٹن کی والدہ نے کہا کہ ’میرے بیٹے کو ایک ناکارہ جہاز میں بیٹھا گیا، انکوائری کا کچھ پتہ نہیں کوئی نہیں بتا رہا کہ حادثہ کیوں ہوا، کون ذمہ دار ہے؟‘۔
عدالت نے ریماکس دیے کہ طیاروں کے حادثات ہو رہے ہیں، پی آئی اے، سول ایوی ایشن کیا کر رہی ہے؟
اس پر نمائندہ سول ایوی ایشن نے بتایا کہ تمام طیاروں کو باقاعدہ فٹنس سرٹیفکیٹس دیے جاتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریماکس میں کہا کہ پھر تو جو فٹنس سرٹیفکیٹ دے رہا ہے حادثے کا ذمہ دار وہ بھی ہونا چاہیے، انکوائری کون کر رہا ہے؟ کیوں رپورٹ نہیں آرہی؟
نمائندہ سول ایوی ایشن نے بتایا کہ طیارہ حادثہ انکوائری وفاقی حکومت کے ماتحت ہو رہی ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی حکومت اور سول ایوی ایشن سے جامع جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔