دعا منگی کیس: پولیس کو سیاسی اور لسانی دباؤ کے سامنے کا انکشاف

19 سالہ دعا منگی کو 30 نومبر کی رات ڈیفنس فیز 6 میں خیابان بخاری پر چائے کے ایک ڈھابے کے باہر سے اغواء کیا گیا تھا— فوٹو فائل

کراچی: ڈیفنس سے اغوا ہونے والی دعا منگی کی بازیابی کے ایک ہفتے بعد بھی تاحال  اس کا قانونی طبی معائنہ ہوا نہ دفعہ 161 کے تحت عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا گیا۔

19 سالہ دعا منگی کو 30 نومبر کی رات ڈیفنس فیز 6 میں خیابان بخاری پر چائے کے ایک ڈھابے کے باہر سے اغواء کیا گیا تھا۔ وہ 6 دن بعد اچانک خود گھر پہنچ گئی تھی اور ملزمان کی جانب سے خود کو زنجیروں میں جکڑ کر اور آنکھوں پر پٹی باندھ قید رکھنے کا بیان دیا تھا جس کے کئی دن بعد کی کوششوں کے نتیجے میں پولیس بھی دعا منگی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔

20 لاکھ روپے تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کرائی گئی دعا منگی نے پولیس کو بھی فلمی طرز کا ایسا ہی گول مول اور بے ضرر بیان ریکارڈ کرایا جس میں اسے اغواء کرنے والے، ایک ہفتہ تک یرغمال بنا کر رکھنے والے یا تاوان وصول کرنے والے کسی ایک بھی ملزم کی نشاندہی نہیں کی گئی اور نا ہی اس کے بیان سے کسی گروہ کے بارے میں کوئی اشارہ مل رہا ہے۔ دوسرے معنوں میں اس بیان سے ملزمان کو ہر پہلو سے تحفظ مل رہا ہے۔

میڈیا پر سامنے آنے والے دعا منگی کے بیان کے مطابق مغویہ نے ان ملزمان کے چہرے دیکھے اور نا آوازیں سنیں اور حیرت انگیز طور پر ملزمان کی جانب سے اس کے کانوں پر ہیڈ فون لگاکر قید رکھنے کا فلمی سین جیسا حوالہ دیا گیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق دعا منگی کے اس بیان کو سچ مان بھی لیا جائے تو قانونی طور پر اس بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، تمام قانونی تقاضے جانتے ہوئے بھی پولیس افسران نے دعا منگی کے اس بیان کو قانونی شکل دینے کیلئے ابھی تک دفعہ 161 کے تحت دعا کا بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔ 

 دعا منگی کو اس مقام پر لے جا کر تفتیش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی جہاں مغویہ کے مطابق ملزمان نے اسے رہا کیا تھا، اس مقام سے شہادتیں جمع کرنے کا کوئی عمل سامنے آیا ہے اور نا ہی سی سی ٹی وی کی مدد سے دعا کو رہا کرنے والوں کی گاڑی کا سراغ لگانے کی کوئی کوشش سامنے آ سکی ہے۔

ذرائع کے مطابق تفتیشی پولیس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی کوشش بھی سامنے نہیں آئی۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ ماضی میں اغوا برائے تاوان کے جتنے بھی بڑے کیسز ہوئے ان میں پولیس یا سرکاری اداروں کی جانب سے بازیاب کرائے گئے افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کرنے کا سلسلہ ریکارڈ پر ہے۔ 

بازیاب افراد کا میڈیکل کرایا جانا مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے مگر دعا منگی کیس میں بعض اعلیٰ پولیس افسران ایسی کسی کوشش کو دعا کے خاندان کے ساتھ اخلاقی زیادتی قرار دے رہے ہیں۔

 ایک اعلیٰ پولیس افسر نے "جیو ٹی وی" کے رابطہ کرنے پر کہا کہ صدمے کا شکار خاندان کو مزید مشکلات میں ڈالنا مناسب نہیں، اسی وجہ سے وہ پولیس کی روایتی سختی کے حق میں نہیں ہیں۔

 ذرائع کے مطابق دعا منگی کی بازیابی کی رات اس کے لیے صدر کراچی کے ہوٹل میں کمرہ بک کرانے کی کوشش نے اس واردات کے سلسلے میں شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔

پولیس کے ایک اور ذرائع نے اس معاملے میں پولیس کو سیاسی اور لسانی دباؤ کا سامنے کرنے کا بھی انکشاف کیا ہے۔

مزید خبریں :